تبصرے کتاب شناسی

فن بیت بازی : حرف حرف آئینہ

تبصرہ حرف حرف آئینہ

مبصر:خواجہ کوثر حیات، اورنگ آباد (دکن) انڈیا

ترتیب و تزئین : سید اطہراحمد۔اورنگ آباد

اردو، جنوبی ایشیا کی ایک اہم اور بڑی زبان ہے۔ بر صغیر ہند کی آزادی کے بعد سے اس زبان کی مقبولیب میں اضافہ ہی ہوتا جارہا ہے۔ یہ ہندوستان کی (22) قومی زبانوں میں سے ایک ہے۔اردو زبان نہایت شیرینی لیے ہوئے کئی چیزوں کا احاطہ کیے ہوئے ہے اس میں جہاں نثر کی جولانیاں ناول،افسانہ،کہانی کی شکل میں عیاں ہوتی ہیں وہیں غزل کی نغمگی کبھی ساز بکھیرتی ہے تو کبھی نظم اپنی کثیر اصناف مصنوعی، مرثیہ، قصیدہ، رباعی اور قطعہ کے ساتھ جلوہ افروز ہو کر اپنا آپ منوالیتی ہے۔ بہرکیف اردو ادب نثر و نظم کا خوبصورت امتزاج ہے۔ اور جس نے اردو پڑھی یا سنی وہ اس کا گرویدہ ہوگیا۔اس لیے آج بھی ہندی فلمیں اردو نغموں کی وجہ سے مقبولیت حاصل کرتی ہیں اور محفلوں میں غزل گوئی سے محظوظ ہوا جاتا ہے۔
یہ وہی اردو ہے جسے غیر اردو دان طبقہ میں بھی بھر پور محبت و توجہ دی جاتی ہے۔ زیر نظر کتاب حرف حرف آئینہ کے لیے ناچیز نے یہ تمہید باندھی۔ یوں تویہ کتاب بیت بازی کے اصول اور ’الف‘ سے’ی‘ تک کے منتخب اشعار پر محمول ہے۔ مگر میری دانست میں اس کا تعارف ارباب علم اور اہل ذوق سے کروانا لازمی ہے کیونکہ بیت بازی کا فن یقینا بہت خوبصورت ہے اور مقبول عام بھی۔
کتاب کی مصنفہ ڈاکٹر عائشہ سِمن صاحبہ نغمگی مزاج کی حامل پرکشش شخصیت رکھنے والی اردو کی بے لوث خدمت گار اوروہ مہاراشٹر کے شہر مالیگاؤں سے وابستہ ہیں۔ شہر مالیگاؤں کی مٹی سے بھی مانو اردو کی خوشبو آتی ہے بڑا ادب نواز اور ادبی ذوق رکھنے والا شہر۔ پھر بھلا عائشہ صاحبہ کیسے اردو کے سحر سے محفوظ رہ پاتیں۔ اردو نوازی آپ کے مزاج کا خاصہ ہے۔ آپ نے اردو سے ہی ایم۔ اے اور بی۔ ایڈ کیا اور اردو کی یہ دلدادہ شخصیت انجمن اسلام اکبر پیر بھائی کالج آف کامرس اینڈ اکنامکس میں اردو کی لیکچرر ہیں اور آپ نے پی ایچ ڈی بھی فکشن رائٹر 2014میں کی ہے۔۔ آپ کا ایک شعری مجموعہ ’نقرئی کنگن بول اٹھے‘ 2010 میں منظر عام پر آچکا ہے۔ آپ ادب اطفال سے بڑی دلچسپی رکھتی ہیں خصوصی طور پر بچوں کے لیے دلچسپ نظمیں لکھتی رہتی ہیں جو مسلسل ملک کے نامور اخبارات کے بچوں کے صفحے کی زینت بنتی ہے۔
آپ طلبا ء میں اردو سے رغبت کے لیے بیت بازی کے مقابلے نہ صرف منعقد کرتی رہتی ہیں بلکہ خوبصورت انداز میں اس کی نظامت بھی کرتی ہیں۔ اسی غرض سے آپ ہمیشہ طلبا کو اشعار کا ذخیرہ کرنے اور اشعار کو یاد کرنے کی ترغیب دیتیں۔ دوران بیت بازی جن مسائل سے طلبا دوچار ہوتے ان کو محسوس کرکے محترمہ عائشہ سمن صاحبہ نے ترتیب دیاہے۔
حرف حرف آئینہ عائشہ سمن صاحبہ کی ضخیم ادبی کاوش ’شعرستان‘ جو تقریباً 1200 صفحات پر مشتمل ہے اس کا پہلا حصہ ہے۔ دراصل عائشہ صاحبہ کا نتیجہ فکر پر ’شعرستان‘ کو چار جلدوں میں تقسیم کردیا گیا زیر نظر’حرف حرف آئینہ‘ دوسرا حصہ ’لفظ سے شعر تک‘ اسی طرح تیسرا حصہ’شعری گل پارے‘ اور چوتھا’متاع بیت بازی‘نام سے زیر طبع ہے۔
کتاب ’حرف حرف آئینہ‘ جو 368 صفحات پر مبنی ہے۔ سرورق کتاب دلچسپی کو عیاں کررہا ہے۔ جسے معروف پبلیکشنز’الفاظ پبلیکشنز‘، کامٹی، ناگپور سے نفیس ترتیب و تدوین کے ساتھ شائع کیا گیا ہے۔اس کتاب کی ترتیب بیت بازی میں دلچسپی و شامل ہونیوالے طلبا کو مدنظر رکھ کر کی گئی ہے۔ بیت بازی اردو اسکول اور کالجیس میں مقابلوں کے لیے درکار ذخیرہ اشعار پر مبنی ہے جس میں قدیم و جدید شعراء اکرام جیسے علامہ اقبال، مرزا غالب، جگر مراد آبادی، الطاف حسین حالی، فانی بدایونی، ظفر گورکھپوری، سیماب اکبر آبادی،حفیظ میرٹھی، افتخار امام صدیقی، راحت اندوری، حامد اقبال صدیقی، محسن ساحل، عائشہ سِمن و دیگر نامور شعراء کے منتخب اور مخصوص اشعار کو شامل کیا گیا ہے۔
بیت بازی کا یہ کھیل ایک شعر یا مصرع کو پیش کرنے کے ساتھ شروع ہوتا ہے۔ پہلا شعر حروف تہجی کے جس حرف پر ختم ہو گا مقابل فرد یا افراد کو اسی حرف سے شروع ہونے والا شعر سنانا ہوتا ہے، ایک ہی شعر دہرایا نہیں جاسکتا۔ جس مقام پر بھی کوئی مطلوبہ شعر نہیں سنا پاتا تو یوں وہ ہار جاتا ہے، عام طور پر ایک وقت (خاص کر ٹی وی پر دکھائے جانے والے اور اسکول وغیرہ کے مقابلوں میں) مقرر ہوتا ہے۔ اگر اس وقت تک ہار جیت کا فیصلہ نہ ہو سکے تو، مقابلہ غیر فیصلہ کن قرار پاتا ہے اور بعض جگہ پہلے سے طے شدہ اصول (جو عام طور پر یہ ہوتے ہیں) کے ذریعے کسی ایک کو زیادہ معیاری اشعار کی وجہ سے فاتح قرار دیا جاتا ہے۔

تہذیب اور تمیز سکھاتی ہے یہ اردو
آداب زندگی بھی سکھاتی ہے یہ اردو
آتا ہے گفتگو کا سلیقہ بھی اسی سے
لہجے کو شگفتہ بھی بناتی ہے یہ اردو
کتنی ہی زبانوں کے ہیں الفاظ بھی شامل
سب مل کے رہیں ہم کو بتاتی ہے یہ اردو

اس کتاب کو پڑھنے کے دوران بہت سے سوالات میرے ذہن میں ابھرے کہ اساتذہ اور طلباء اس کتاب کو کیوں پڑھیں تو جواب مجھے اس کے مطالعہ سے ہی ملا جس کی دلچسپ ترتیب نے مجھے اسے پورا اطمینان سے پڑھنے پر مجبور کیا۔ آخر میں اس نتیجہ پر پہنچی کہ بیت بازی کے ذریعہ بآسانی طلباء میں شعر فہمی پیدا کی جاسکتی ہے۔ شعر فہمی کے ذریعہ اردو الفاظ اور اُن کے تلفظ سے واقفیت اور زدعام استعمال کا موقع میسر آتا ہے۔ بغیر ذہن کو بوجھل کیے کھیل کھیل میں اشعار کے ذخیرے سے الفاظ کا ذخیرہ ہونا اور اردو زبان پر عبور حاصل ہونا آسان ہوجائے گا۔اس کتاب کی خاصیت یہ ہے کہ اس میں بیت بازی کے اصول و ضوابط بہت عام فہم انداز اور تفصیل سے بتائے گئے ہیں۔ عائشہ سِمن صاحبہ نے اپنی کتاب کے ذریعے یہ ثابت کردیا کہ اردو کی تزئین کاری میں شعر و شاعری اپنی بھرپور قوت و رعنائیوں سے ہم رکاب ہے۔
شعر و شاعری آسان لفظوں میں کہا جائے تو طویل بات کو مختصر پیرائے میں پیش کرنے کا نام ہے۔ جہاں الفاظ کا رکھ رکھاؤ اس کی نشست و برخاست اس کے حسن کو دوآتشہ کردیتے ہیں۔ وہی آسان الفاظ حافظہ میں کیل ٹھونکنے کے مصداق ثبت ہوجاتے ہیں تو مشکل اور دقیق الفاظ دعوت غور و فکر دیتے ہیں جس کی وجہ سے منطق کی تشفی ہوتی ہے۔
بیشک بیت بازی ضرور ایک دلچسپ تعلیمی کھیل ہے۔ جو اکتساب علم کا بہترین ذریعہ ہے اس لیے بیت بازی کے مقابلے منعقد کرکے ترویج اردو اور بقائے اردو کے لیے مثبت قدم اٹھایا جاسکتا ہے اور مجھے یقین ہے کہ اساتذہ اور طلباء کے لیے محترمہ عائشہ سمن صاحبہ کی یہ کتاب ’حرف حرف آئینہ‘ ایک ایسا تحفہ ہے جو اس مقصد کی حصول یابی کے لیے ایک موثر ذریعہ ثابت ہو گی ساتھ ہی اس کو پڑھ کر منتخب اشعار کے شعراء کا مزید کلام پڑھنے کی جستجو بھی پیدا ہو گی۔ یہ کتاب نسل نو کے لیے اچھی تبدیلی اور تحصیل علم اور زبان کے لیے سنگ میل کی حیثیت رکھے گی۔اردو سے محبت رکھنے والے ہر قاری اور اسکول اور کالج کی لائبرری میں عائشہ سمن صاحبہ کی کتاب ’حرف حرف آئینہ‘ ضرور ہونا چاہیے۔

مصنف کے بارے میں

کوثر حیات

ایک تبصرہ چھ