غیر درجہ بند

شکایت ہے مجھے یارب از محمد ہاشم القاسمی

جی این کے اردو

محمد ہاشم القاسمی (خادم دارالعلوم پاڑا ضلع پرولیا مغربی) 

فون نمبر =9933598528

 

عبدالغفار صدیقی صاحب کا تازہ ترین مضمون “شکایت ہے مجھے یارب خداوندان مکتب سے. مدارس کی تباہی اور بربادی کے ذمہ دار کون؟

 ملک کے مختلف اخبارات میں شائع ہوا ہے، مضمون نگار کی چند باتیں ایسی ہیں جو حقیقت واقعہ سے صرف نظر، تاریخ سے ناواقفیت، بلکہ عداوتی ذہنیت اور علماء دشمنی کاپیش خیمہ اور غمازی کرتا ہے. 

جبکہ یہ ایک ناقابل انکار حقیقت ہے کہ گزشتہ ڈیڑھ تا دو سو سال کے عرصہ میں پورے برصغیر میں نا موافق حالات کے باوجود اسلامی افکار و اقدار کی حفاظت جس ذریعہ سے انجام پائی ہے، وہ مدارس اسلامیہ ہیں۔ 1857ء سے پہلے ہمارے ملک ہندوستان میں دینی تعلیم کے ادارے موجود تھے، لیکن یا تو وہ حکومتوں کے تحت چلتے تھے، یا بڑے نواب اور رؤساء اپنی ڈیوڑھیوں میں مدارس قائم کیا کرتے تھے۔ قوم و ملت کا براہِ راست اتنے اداروں سے تعلق نہیں تھا، اس لیے یہاں طلبہ بھی محدود ہوتے تھے اور پڑھنے پڑھانے کا عمل دوسری طرح کے تعلیمی اداروں کی طرح ایک پیشہ کے طور پر کیا کرتے تھے۔ حضرت مولانا محمد قاسم نانوتوی رحمۃاللہ علیہ نے صرف ایک مدرسہ قائم نہیں کیا، بلکہ قیامِ مدارس کو ایک تحریک کی شکل دی اور اس کے لیے یہ نظام قائم فرمایا کہ ان اداروں کو عوامی تعاون کے ذریعہ چلایا جائے، حکومت اور اصحابِ ثروت کا محتاج نہ رکھا جائے، اس کے متعدد فائدے ہوئے۔ اوّل یہ کہ یہ ادارے حکومتوں اور سرمایہ داروں کی بے جا مداخلت سے محفوظ ہو گئے، دوسرے یہاں طلبہ صرف تعلیم ہی حاصل نہیں کرتے، بلکہ ان میں دینی غیرت و حمیت بھی پیدا کی جاتی ہے تاکہ وہ اپنے آپ کو اسلام کا ایک ہمہ وقتی سپاہی تصور کریں۔ تیسرے چونکہ یہ ادارے عوامی مدد سے چلتے ہیں، اس لیے عوامی جواب دہی کا احساس بھی ان کے اندر رہتا ہے اور یہ چیز بہت سے مواقع پر ان کو انحراف اور غلط روش سے محفوظ رکھتی ہے، چوتھے عوام کا ان اداروں سے تعلق قائم رہتا ہے اور اس کی وجہ سے عام مسلمان اپنے علماء سے مربوط رہتے ہیں۔ پانچویں اس تعلق کے نتیجہ میں علماء کے اندر بھی عام مسلمانوں کی فکر باقی رہتی ہے، آج جو مدارس اور مکاتب کی فکر کر رہے ہیں، اصلاح معاشرہ کی تحریک چلار ہے ہیں، دار القضاء کا نظام قائم کر رہے ہیں، دیہاتوں میں مسجدیں تعمیر کرا رہے ہیں، حسبِ موقع خدمت خلق کے کام بھی کرتے ہیں، یہ سب اسی فکر مندی کا نتیجہ ہے۔(مدارس اسلامیہ خود احتسابی کی ضرورت)

دینی مدارس کا امتیاز ہے کہ یہاں تعلیم نہایت ٹھوس اور مضبوط ہوتی ہے، انہی مدارس سے تعلیم پاکر اکابرین و علماء نے مختلف میدانوں میں امت کی رہبری انجام دی ہے، ہمارے مدارس کی تاریخ ہے کہ مدارس کے نصابی کتابوں کوپڑھ کر ہی وہ مضبوط و مستحکم انداز میں خدمات انجام دیتے تھے، 

دینی مدارس کا ایک امتیاز یہ بھی ہے کہ یہاں تعلیم پانے والے طلباء جہاں ظاہری علوم سے فیض یاب ہوتے ہیں، اور کتابوں سے استفادہ کرکے قابلیت و صلاحیت کو پروان چڑھاتے ہیں وہیں اصلاح و اخلاق کی تربیت کے مرحلے سے بھی گذر کر خودکو صالحیت و تقوی سے مزین کرتے ہیں اور باطن کی اصلاح سے بھی آراستہ ہوتے ہیں۔ مدارس کی ابتدائی تاریخ سے آج تک یہ تسلسل باقی ہے کہ ظاہری علوم کے ساتھ باطنی کیفیات بھی ان مدارس سے طلباء کو ملتی رہیں، دنیا میں اخلاقی تربیت کرنے اور اصلاح و سدھارکا بے مثال نمونہ پیش کرنے والے صرف مدارس ہیں، باقی دنیا میں جتنے جامعات اور یونیورسٹیز اور کالجس ہیں یہاں تو صر ف فنون اور ظاہر ی علوم سیکھائے جاتے ہیں تربیت وغیر ہ میں ان کا کوئی کارنامہ نہیں، یہ بھی مدارس کا امتیاز ہے کہ یہاں طلبا ء میں اخلاقی روح بھی پھونکی جاتی ہے، دعوتی فکر بھی بیدار کی جاتی ہے اور اصلاح پر بھی زور دیا جاتا ہے۔

ہمارے مدارس میں افراد سازی پربھر پور توجہ دی جاتی تھے، اور اساتذہ پوری لگن اور فکر کے ساتھ اپنے شاگردوں کو تیار کرتے ہیں اور ان کو قابل و لائق بنانے کی ہر تدبیر اختیار کرتے ہیں تاکہ ان کے بعد علم کی شمع برابر جلتی رہے، تحقیق کا میدان بھی آباد رہے، اور دین کے مختلف تقاضے بھی پورے ہوتے رہے، اگر ہم ایک ہلکی نظر دارالعلوم دیوبند کی تاریخ پرڈالیں گے تو معلوم ہوگا کہ ایک شیخ الہند نے کتنے علماء کو تیار کیا جو مسند تدریس کے باکمال اساتذہ بھی تھے، میدان جہاد کے جواں مرد سپاہی بھی، تصنیف وتالیف میں شہوار بھی تھے، اور دعوت و تبلیغ میں سرگرداں بھی یہی سلسلہ چلتا رہا، حضرت شیخ الاسلام مولانا حسین احمد مدنی رحمۃاللہ علیہ نے ان گنت شاگردوں اور رجال کار کو تیار کیا یہ تو ماضی قریب کی تاریخ ہے ورنہ تو پوری اسلامی تاریخ اس پر شاہد ہے اہل علم کے یہاں افراد سازی کی بڑی اہمیت تھی، اکابرین کو اس ضرورت کا شدید احساس تھا، قوم کی امانت کو پوری دیانت کے ساتھ واپس کرنے کی فکر تھی اسی لئے وہ تن من لگاکر افراد کو تیا ر کرتے تھے، 

ان مدارس کے وجود کے جداگانہ تشخص اور آزادانہ کردار کے تحفظ کا مسئلہ ہے۔ اس لیے کہ عالمی اور ملکی سطح پر مقتدر طبقات ایک مدت سے اس تگ و دو میں ہیں کہ ان مدارس کا وجود اپنی موجودہ کیفیت کے ساتھ قائم نہ رہے۔ یا تو ریاستی انتظام کے دائرے میں لا کر اجتماعی دھارے میں شامل کرنے کے خوبصورت لیبل کے ساتھ انہیں ان کے جداگانہ دینی تعلیمی تشخص سے محروم کر دیا جائے، اور یا جدید علوم بالخصوص سائنس اور ٹیکنالوجی کو نصاب میں شامل کرنے کے بہانے خالص دینی تعلیم کے نصاب کو تحلیل کر دیا جائے۔ اور اس کے ساتھ ہی ان کا یہ آزادانہ کردار بھی باقی نہ رہنے دیا جائے کہ وہ اپنے تعلیمی نظام و نصاب کے تعین کے ساتھ ساتھ مالیاتی اور انتظامی طور پر بھی مکمل حیثیت سے خودمختار ہیں اور کسی کی مداخلت کو قبول کرنے کے لیے تیار نہیں۔ 

 مدارس کے اس جداگانہ تشخص اور مالیاتی و انتظامی خودمختاری کے کچھ نقصانات بھی ہوں گے جن سے انکار نہیں کیا جا سکتا لیکن یہ بھی ایک تاریخی حقیقت ہے کہ مسلم معاشرے میں دینی مدارس کے کردار کے جن تین پہلوؤں کا ہم نے تذکرہ کیا ہے اس کردار کے مؤثر اور نفع بخش ہونے کی سب سے بڑی وجہ یہی جداگانہ تشخص اور آزادانہ کردار ہے۔ اس سے محروم ہو کر دینی مدارس اپنا وہ کردار باقی نہیں رکھ سکیں گے جو گزشتہ ڈیڑھ سو برس سے ان کا امتیاز چلا آرہا ہے۔

کچھ لوگ اپنے آقاؤں کے اشارے پر رقص کرتے ہوئے ہر مسئلہ میں مسلمانوں کی کردار کشی کیلئے تیار بیٹھے ہیں۔ان لوگوں کی زبان سے یہ گلے اور شکوے سامنے آتے ہیں “شکایت ہے مجھے یارب خداوندان مکتب سے” یہ شکایت نہیں بلکہ علماء کرام کی جدوجہد اور ان کی قربانیوں سے صرف نظر کی ادنیٰ مثال ہے ورنہ زبان پر یا نوک قلم سے ایسے الفاظ کی کوئی گنجائش ہی نہیں ہے کہ “مدارس دین کے مضبوط قلعے نہیں بلکہ علماء کرام کی تحفظ فراہم کرنے کے لئے قائم کئے جاتے ہیں، یہ حقیقت کا انکار ہے اور علماء کرام کے ساتھ عداوت اور دشمنی کی کھلی دلیل ہے، مدارس کی تباہی اور بربادی کے ذمہ دار آپ جیسے لوگ ہیں جن کی آنکھوں میں عصبیت، اور عداوت کا عینک چڑھا ہوا ہے ” ویسے تو ملت اسلامیہ کو ہمیشہ ہی میر جعفروں سے زیادہ ضرر پہنچا ہے ۔ اس وقت بھی یہی میرجعفر ہراول دستہ کا کردار ادا کررہے ہیں ۔ ان کے پیچھے دوسرا ٹولہ وہ ہے جو اس ملک کے مسلمانوں پر کسی نہ کسی بہانے عرصۂ حیات تنگ کررہاہے ۔ مسلمانوں کو ان کے جائز آئینی و شہری حقوق سے محروم کرنے کیلئے نت نئی سازشیں کررہاہے ، مسلمانوں کو مذہبی تشخص سے محروم کرنے کیلئے شریعت میں مداخلت اور شعائر اسلام کے خلاف ہذیان گوئی ، اشتعال انگیزی اور زہرافشانی کے ذریعہ مسلمانوں کو دہشت زدہ کررہاہے ۔نائن ایلیون کے بعد سے مدارس کو جس قدر نشانہ بنایا گیا اور اس کا دنداں شکن جواب جس حسن اسلوبی کے ساتھ دئیے گئے اور ہر قسم کے لوگوں کے لئے مدارس کے دروازے کھول دیئے گئے کہ وہ بنفس نفیس تشریف لائیں اور مدارس کے کارہائے نمایاں کا معائنہ کریں، ہمارے مدارس کے ہر شعبے جات آئینہ کی طرح صاف شفاف ہے، اتر پردیش کی حکومت کی جانب سے سروے کے احکامات سے ہمیں کوئی اعتراض نہیں ہے تاہم ہمیں ان نیتوں پر اعتماد نہیں ہے. 

 دوسرا بڑا چیلنج عالمی میڈیا اور ذرائع ابلاغ ہیں۔ ان کی کردارکشی کی مہم ہے جو منظم اور مربوط طور پر چلائی جا رہی ہے اور مدارس کی ایسی مکروہ تصویر دنیا کے سامنے پیش کی جا رہی ہے جو حقیقت کے منافی اور انتہائی نفرت انگیز ہے۔ انہیں قرون مظلمہ اور ظلم و تشدد کے اس تاریک دور کے پس منظر میں دنیا کے سامنے پیش کیا جا رہا ہے جب یورپ میں بادشاہ اور جاگیردار کی حکمرانی تھی اور عام آدمی غلاموں سے بھی بدتر جانوروں جیسی زندگی بسر کر رہا تھا۔ بادشاہ اور جاگیردار کے اس ظلم و جبر میں مذہبی ادارے اور شخصیات عام مظلوم لوگوں کا ساتھ دینے کی بجائے بادشاہ کے طرفدار اور جاگیردار کے پشت پناہ بنے ہوئے تھے۔ عالمی میڈیا دینی مدارس کی غلط تصویر پیش کر کے دنیا کو یہ باور کرانے کی کوشش کر رہا ہے کہ یہ دینی مدارس وہی تاریک دور واپس لانا چاہتے ہیں اور اس دور کی نمائندگی کرتے ہیں۔ حالانکہ یہ بات قطعی طور پر غلط اور تاریخی حقائق کے منافی ہے۔ہمارے ہاں تو مذہب اور مذہبی شخصیات نے جبر و ظلم کا ساتھ دینے کی بجائے ہمیشہ دلیل اور حق کا ساتھ دیا ہے اور اس حوالے سے علماء کرام کی قربانیوں، شہادتوں اور قید و بند کی صعوبتوں سے تاریخ بھری پڑی ہے۔ ہمارے ہاں مذہب اور مذہبی اداروں نے سائنس کی راہ میں کبھی مزاحمت کی دیوار کھڑی نہیں کی

دینی مدارس سے بہت سے دوستوں کو یہ شکایت ہے کہ وہ سائنس اور ٹیکنالوجی کی تعلیم کیوں نہیں دیتے حالانکہ انہیں خود بھی معلوم ہے کہ یہ مضامین دینی مدارس کے اہداف کا حصہ نہیں ہیں کیونکہ دینی مدارس کے اہداف متعین ہیں: (۱) دینی علوم کی حفاظت ہو اور وہ اصلی حالت میں اگلی نسل تک منتقل ہوں۔ (۲) عام مسلمان کا قرآن و سنت اور دینی تعلیمات کے ساتھ رابطہ قائم رہے۔ (۳) مسلمانوں کے عقائد اور ثقافت کا تحفظ ہو۔ (۴) اور مسجد و مکتب کا ادارہ باقی رکھنے کے لیے انہیں ضرورت کے مطابق تربیت یافتہ حضرات فراہم ہوتے رہیں۔ اس کے علاوہ دینی مدارس کے اہداف میں کوئی مقصد شامل نہیں ہے جبکہ سائنس اور ٹیکنالوجی کے لیے الگ سے ادارے موجود ہیں، بجٹ موجود ہے، وسائل میسر ہیں اور رجال کار موجود ہیں۔ لیکن سائنس اور ٹیکنالوجی میں قوم کے پیچھے رہ جانے کے بارے میں ان ذمہ دار اداروں سے باز پرس کرنے کی بجائے سارا غصہ دینی مدارس پر نکالا جاتا ہے اور سارے مطالبات ان کی طرف رخ کر کے کیے جاتے ہیں۔

اب آخر میں موزوں حکمت عملی کے حوالے سے چند گزارشات پیش کرنا چاہتا ہوں جن پر دینی مدارس کے ارباب حل و عقد کو سنجیدگی کے ساتھ غور کرنا چاہیے. 

مدارس اسلامیہ اپنے جداگانہ تشخص اور آزادانہ کردار کے تحفظ کے لیے دینی مدارس کو باہمی اتحاد اور اشتراک و ارتباط میں اضافہ کرنا ہوگا۔ کیونکہ دینی مدارس کے مختلف وفاق جس طرح اب اکٹھے ہیں اسی طرح متحد رہے تو کسی کو ان کے جداگانہ تشخص اور آزادانہ کردار کے خلاف کوئی قدم اٹھانے کا موقع نہیں ملے گا۔

اپنے امیج کو صحیح بنانے کے لیے انہیں عالمی میڈیا تک رسائی حاصل کرنا ہوگی اور اپنے موقف، خدمات اور عزائم سے دنیا کو باخبر کرنے کے لیے میڈیا اور لابنگ کے تمام ممکنہ ذرائع اختیار کرنا ہوں گے۔

لوگوں کی توقعات، تجاویز، شکایات اور تقاضوں سے پوری طرح آگاہی حاصل کر کے ان پر باہمی بحث و مباحثہ اور مختلف درجات و مراحل میں ان کے تجزیہ و تحلیل کی ضرورت ہے۔ اور جن باتوں پر عمل ہو سکتا ہو انہیں دائرہ عمل میں لانے سے حتی الوسع گریز نہ کیا جائے۔

متعلقہ اربابِ فن و علم سے وقتاً فوقتاً رابطہ اور مشاورت کا اہتمام کیا جائے اور ان کے تجربات اور آراء و افکار سے استفادہ کیا جائے۔

رائے عامہ کو اعتماد میں لینا اور اعتماد میں رکھنا بھی ضروری ہے۔ اس کے لیے قومی اخبارات اور ممتاز اصحابِ قلم سے رابطہ اور ان کی بریفنگ کا اہتمام ناگزیر ہے۔(دینی مدارس کو درپیش چیلنجز) 

   مجھے امید ہے کہ مضمون نگار اپنی شکایت محبت اور عقیدت کے ساتھ ذہنی، فکری اور حالات سے متاثر ہوئے بغیر آزادانہ انداز میں غور و خوض سے کام لیتے ہوئے صحیح نتیجے پر پہنچنے کی کوشش کریں گے. 

مصنف کے بارے میں

GNK Urdu

ایک تبصرہ چھ