یوم پیدائش

آج 21 مئی ۔۔۔جموں و کشمیر کی نو جوان نسل کےنمائندہ شا عر ، ادیب اور تحریک بقائے اردو کے صدر عرفان عارف کا یوم ِ پیدائش ہے۔

جی این کے اردو، 21 مئی 2023

آج 21 مئی ۔۔۔
جموں و کشمیر کی نو جوان نسل کےنمائندہ شا عر ، ادیب اور تحریک بقائے اردو کے صدر عرفان عارف کا یوم ِ پیدائش ہے۔

عرفان عارف ابتدا میں ع۔ع عارف کے نام سے لکھتے تھے بعد میں عرفان عارف قلمی نام اختیار کر لیا ۔ان کا اصل نا م عرفا ن علی ہے۔ان کی پیدائش 21 مئی 1978ءمیں جموں کشمیر کے سر حدی علاقہ ضلع پونچھ میں ہوئی ہے ۔ان کے والد کا نام غلا م اکبر اور والدہ صفیہ بیگم ہیں ،چا ر بہنوں کے اکلوتے بھائی عرفان عارف نے بنیا دی تعلیم سرحدی علا قہ پونچھ کے مقامی سرکا ری اسکولوں سے ہی حاصل کی ۔پھرگورنمنٹ ڈگری کا لج پو نچھ سے گریجویشن کرکے اعلیٰ تعلیم کے لئے جموں کا رخ کیا ، جموں یو نی ورسٹی کے شعبہ اردو سے 2003ءمیں فرسٹ ڈیویزن میں اُردو ایم۔ اے کی ڈگری حاصل کی۔ اسی سال قومی اہلیتی امتحان NET برائے لیکچر شپ بھی کامیابی حاصل کی ۔اس دوران گورنمنٹ ڈگری کالج پو نچھ میں بطور کنٹریکچول اردو لیکچرار اپنے فرا ئض انجام دینے لگے ۔پھر کچھ ماہ ہائر اسکینڈری ا سکول ساوجیاں میں بھی 10+2 میں بطور کنٹریکچول اردو لیکچرار کا م کیا ۔مڈل کلا س کنبے سے تعلق رکھنے والے عرفا ن علی کو تعلیمی قابلیت کی بنا پر منڈی زون میں رہبرِ تعلیم ٹیچر کے طور پر بھی پہلے نمبر پرچنا گیا ۔ انہیں پڑھنے اور پرھانے سے زیادہ دلچسپی تھی اس لئے ضلع راجوری جاکر ہما لین ڈگری کالج(ہمالین ایجوکیشن مشن سوسائٹی،راجوری) میں بطور لیکچرار کام شروع کیا۔ اسی دوران ریا ستی سروس سلیکشن بورڈ کی جانب سے پٹواری کی سلیکشن لسٹ میں بھی نام آیا۔مگر والد کی ناپسندیدگی کی وجہ سے محکمہ مال میں کام نہیں کیا ۔
2007 ءمیں با با غلا م شاہ با دشا ہ یو نی ورسٹی، راجوری میں” لینگویج پرموشن سیل اردو“ میں بطو ر” کمیونی کیشن اسسٹنٹ اُردو‘تعینات کیے گیے ۔ یہا ں انھو ں نے Medicinal Plant جیسی کتا ب کا اُردو ترجمہ ” ادویا تی پو دے “ کے نا م سے کیا اور’غیر اردو داں طبقے کے لئے ” اُردو کیسے سیکھیں “ جیساایک کتا بچہ بھی تیا ر کیا ۔ 2010ءمیں جموں کشمیر پبلک سروس کمیشن کی جانب سے منعقدہ اردو لیکچرار کے انٹرویو میں ریا ست بھر میں اول مقام حاصل کیا۔ سات برس اس محکمہ میں اپنے فرائض انجام دینے کے بعد 2017ءمیں حکومت جموں و کشمیر کے محکمہ اعلیٰ تعلیم میں بطور اسسٹنٹ پروفیسر اردو ان کا تقررہوا۔
۔ان کی کئی کتا بیں منظر عا م پر آچکی ہیں جن میں ” فن ِ تدریس ِ اُردو “ ،دُور اُفق سے پا ر، کہکشا ن ِ ادب“جدید اُردو نصا ب برائے بی ۔اے سمسٹر اول تا ششم ،صدائے سحر ،جدید اُردو نصاب مع شرح برائے بارہویں جماعت قا بلِ ذکر ہیں ۔انھوں نے ریا ست اور بیرون ِ ریا ست میں اُردو شعر و ادب کے حوا لے سے متعدد دورے بھی کیے ہیں۔
انھیں متعدد انعا ما ت و اعزازا ت سے نوازا گیا ہے ۔جن میں اہمیت کے حامل ہیں۔
۱۔ 6 جنوری 2013 میں ”ہندوستا نی ادبی کلچر “بنارس کی جا نب سے حا صل کردہ ”ڈاکٹر امرت لعل عشرت ایوارڈ“
۲۔ 31 جولائی 2015ءمیں” سیتوسنسکرتک کیندر بنارس“ کی جانب سے ”پریم چند سماجک سروکارایوارڈ “
۳۔ ہمالین ایجوکیشن سوسائٹی کی جانب سے 2009 میں یوم ِ استاد کے موقع پر”بہترین اردو استاد ایوارڈ“
۴۔ نئی دہلی ”انڈیا ویژن“ ٹی وی پروڈیکشن” نوئڈا “کی جا نب سے قو می سطح کے یو نی ورسٹی کو ئز مقابلہ ” معمہ “ میں دوسرا مقام حا صل کیا ہے
عرفان عارف ریا ستی سطح پر اُردو ، گو جری اور پہا ڑی مشاعروں میں بحیثیت شاعر شرکت کرتے رہتے ہیں یہی نہیں بلکہ متعدد قومی اور بین الاقوامی سطح کے مشا عروں ، سیمینا روں اور ادبی کا نفرنسوں کو منعقد کر وا نے میں بھی کلیدی رول ادا کرتے رہے ہیں۔ انھیں”تحریک بقائے اُردو“ نا می ایک غیر سرکا ری تنظیم کا صدر ہونے کا شرف بھی حاصل ہے۔انہوں نے
۔انٹر نیشنل سینٹر فا ر رلیجن اینڈ ڈپلو میسی (واشنگٹن۔ ڈی ۔سی) کی جا نب سے ایشیا ہو ٹل جموں میں چا ر روزہ( 10-14 ما رچ 2002 ئ) ورک شاپ ” faith based reconciliation میں حصہ بھی لیا ہے ۔جمو ں کشمیراکا دمی آف آرٹ کلچر اینڈ لینگویجز کی طرف سے جموں میں ریا ستی سطح پر منعقدکیے گئے 7 روزہ (14-20 جنوری 2002 ئ)پہا ڑی ” کہا نی اتسو “ میں بحیثیت جج کے فرائض انجا م دیئے۔ ”سینٹرل انسٹی چیو ٹ آف انڈین لینگو یجز“ میسور کی جانب سے جموں یو نی ورسٹی میں منعقد ”اُردو صوتیا ت“پر6 روزہ ورک شاپ میں بھی شریک رہے ہیں۔۔7روزہ کل ہند قو می یکجہتی کمپ(22-28 فروری 1997جموں) کٹھوا اور (26 مئی تا 2 جون 2002لیہہ ) لدا خ میں بھی حصہ لیا ہے ۔
2018 “میں جب ریا ستی کو نسل برائے فروغ ِ اُردو زبا ن، جموں وکشمیر “کاقیام عمل میں آیا تو۔عرفان عارف اس کونسل کے ممبر بھی نامزد ہوئے۔اس کے علاوہ ریا ست جموں و کشمیر کے محکمہ اعلیٰ تعلیم نے پہلی با ر مختلف زبا نو ں میں ایک ساتھ درجنوں تحقیقی مجلے شروع کیے جن میں اُردو کا تحقیقی مجلہ ” اعلیٰ تعلیم “ بھی شا مل ہے اور ۔ عرفان عارف کی اردو دوستی کو دیکھتے ہوئے انہیں ”اعلیٰ تعلیم “ کی مجلس ِ ادارت میں بھی شامل کیاگیا ہے۔ انہیں دو مرتبہ ریاستی گورنر کے خطاب کا اُردو ترجمہ اور ایک با ر ریا ستی اسمبلی بجٹ کا اردو ترجمہ کرنے کا شرف بھی حاصل ہے۔کمپیوٹر اور اردو مضمون پر مہا رت کی بنا پر یونی ورٹی آف جموں اور کلسٹر یو نی ورسٹی آف جموں کے ساتھ ساتھ اٹانمس کالج جی سی ڈبلیو پریڈ کی بورڈ آف اسٹڈیز کے ممبر بھی ہیں۔اس کے علاوہ اکاش وانی پونچھ میں گزشتہ پندرہ برسوں سے کیجول اننونسر بھی ہیں ۔
بین الاقوامی نوجوان اردو اسکالرز انجمن (آیوسا) کے کنوینیر،انجمن علم و ادب اور ساوتھ ایشین کلچرل سوسائٹی آف شکاگو (امریکہ) کے ممبر ،
منتہائے فکرعالمی ادبی ادارہ کی ضلع جموں کے صدر ہیں۔ ان کے علاوہ ممبر بزم اہل سخن پاکستان ،ممبر ریا ستی اُردو کو نسل ‘جموں و کشمیر، ممبر مجلس ِ ادارت ”اعلیٰ تعلیم “محکمہ اعلیٰ تعلیم جموں وکشمیر،ممبر: سرسید ایجوکیشن مشن سوسائٹی پونچھ،عالمی فاو نڈیشن برائے اردو شاعری،امروہہ فاونڈیشن،دبستان ِ غزل ،انجمن فروغ اردو جموں ،ممبر کلا منتھن،اردو کارواں ممبئی،قلمکار،دی رائٹرس گروپ کے علاوہ معاون و ممبر مجلسِ مشاورت سہ ماہی رسالہ ’تحریکِ ادب“بنارس اور معاون مدیر سہ ماہی ” زبان و بیان” ہیں۔
تراجم
ادویاتی پودے(انگریزی سے اردو)،
گورنر خطابات (انگریزی سے اردو)،
صدائے سحر (ہندی سے اردو)
تخلیقات
عرفان عارف کے مقا لے ، مضا مین ، غزلیں ، نظمیں، ہا ئیکو ، تجزیے اور تبصرے ملکی اور غیر ملکی رسا ئل ، جرا ئد اور اخبا رات میں شا ئع ہو تے رہتے ہیں۔جن میں جدید ادب جرمنی، تریا ق ممبئی ، ایوان ِ اُردو دہلی، سب رس حیدر آبا د، انقلا ب بنا رس،آئینہ پو نچھ،انجمن کشتواڑ، سندیش جموں، اُڑان جموں، فکر و تحریر کو لکاتا ، کشمیر اعظمیٰ سرینگر، شا عر ممبئی ، لفظ لفظ سرینگر، بین الاقوامی صدا سرینگر، رو ح ِ وطن جموں ،با ڈر میل راجوری ، تحریک ادب بنا رس، مفا ہیم رانچی، کتا ب نما دہلی،حکیم الامت سرینگر ،لا زوال جموں، کرن کرن روشنی پاکستان، سخن فیصل آباد، اعلیٰ تعلیم محکمہ اعلیٰ تعلیم، تاثیر پٹنہ ، جذبہ پوسٹ یو ایس اے، اردو آنگن ممبئی ،کراچی ٹائمز یو ایس اے، ایس ٹی وی یو کے ، سخن ٹی وی پاکستان ،سٹیٹ آبزرور جموں، جموں، لازوال چینل جموں، ماہنامہ رو8شن کائنات مانچسٹر انگلینڈ،اردو لنک یو ایس اے،اردو قاصد سویڈن، صحافت
ممبئی، ہندوستان ممبئی، ممبئی اردو نیوز،گلوبل ادبی فورم یو کے، انٹر نیشنل نگینہ کشمیر ، اردو سفر کوکن وغیرہ کا فی اہم ہیں۔
کتابی سلسلہ ” سخن ” فیصل آباد میں گوشہ بھی شائع ہوا ہے


پیش ہے معروف شاعر عرفان عارف کے یوم ولادت پر ان کا کلام بطور خراج عقیدت

خوش نُما منظر یہاں کوئی نہیں
خوشبووں کا گھر یہاں کوئی نہیں

ٹوٹ کر بکھر ے پڑے ہیں آئینے
دُور تک پتھر یہاں کوئی نہیں

کس کے سر رکھیں کلاہءفخر ہم
جب مقدس سر یہاں کوئی نہیں

قاتلوں کے شہر میں تم ہو مگر
ہاتھ میں خنجر یہاں کوئی نہیں

لوٹ کر آئے بھی کیا عارف میاں
گاوں ہے پر گھر یہاں کوئی نہیں
۔۔۔۔۔
چلو راحت ہے دنیا میں ابھی ایمان باقی ہے
ہزاروں وحشتوں کے درمیاں انسان باقی ہے

مچلتا ہے یہ دل اب تک تری یادیں بھی ہیں زندہ
ابھی میں مر نہیں سکتا ترا ارمان باقی ہے

مجھے آئینہ دو میں بھی تو دیکھوں غور سے خود کو
میرے چہرے پہ کس کی اب تلک پہچان باقی ہے

ہے منزل دور ہم بھی آبلہ پا ہیں بہت لیکن
نہیں رُکنے کی یہ تحریک جب تک جان باقی ہے

مٹانے آئیں گے وہ اور تھک کر لوٹ جائیں گے
کہ سچ قائم رہے گا جب تلک عرفان باقی ہے
۔۔۔۔۔۔۔
ستمگر کے ستم سہیے کسے کیا فرق پڑتاہے
اندھیروں میں پڑے رہیے کسے کیا فرق پڑتاہے

اسے تو نام پہ مذہب کے بس کرنی سیاست ہے
کسی کوبھی خدا کہیے کسے کیا فرق پڑتا ہے

لٹا کے گھر کی عصمت کو چھپا کے اپنے چہروں کو
جھکائے سر کھڑے رہیے کسے کیا فرق پڑتا ہے

صحافت آج بے شرمی کا چولا اوڑھ بیٹھی ہے
جو جی میں آئے وہ کہیے کسے کیا فرق پڑتا ہے

سیاست سے عدالت تک یہاں سارے ہی بہرے ہیں
مسلسل چیختے رہیے کسے کیا فرق پڑتا ہے

حمایت کرنے اٹھے ہیں غریبوں کی کسانوں کی
میاں عرفان چُپ رہیے کسے کیا فرق پرتا ہے
۔۔۔۔۔۔۔
تو ہی محسن ہے مرا تو ہی ستمگر ہو گا
جانتا ہوں کہ ترے ہاتھ میں خنجر ہو گا

میں بھی بن جاؤں گا قطرے سے کسی دن دریا
منتظر میرا بھی اک روز سمندر ہو گا

میں رہوں یا نہ رہوں تیری نگاہوں میں مگر
میرا احساس ترے دل کو برابر ہوگا

کاٹتے ہوں گے یہاں لوگ ہرے پیڑوں کو
ورنہ سیلاب کی زد میں کوٸ کیونکر ہوگا

ایسے بے خوف اترتا نہیں تہ میں کوئی
تیرنے والا بھی یقیناً ہی شناور ہوگا

اپنی نا کامی پہ عرفان تو مایوس نہ ہو
ایک دن تو بھی مقدر کا سکندر ہو گا

اک تمنا ہے اک شرارا ہے
جسم سارا کہ پارا پارا ہے
بہہ رہا ہوں میں تری یادوں میں
جھیل ڈل میں کوئی شکارا ہے
لکھ رہا ہوں میں وصیت اپنی
جو بھی میرا ہے سب تمہارا ہے
تو مکمل ہی چاہیے مجھ کو
اس سے کم میں نہیں گزارا ہے
۔۔۔۔۔
چند لمحوں کی روشنی کے لئے
روز مرتے ہیں زندگی کے لئے
ہر گھڑی مجھ سے دور رہتا ہے
جس کو مانگا تھا ہر گھڑی کے لئے
وہ ہے عر فا ن ، غیر ممکن ہے
اس کو پا لینا ہر کسی کے لئے
۔۔۔۔۔۔
ہر طرف نالہ و بکا کیا ہے
کیاہوا ہے بھلا ہوا کیا ہے

کون منصف ہے طے جو کرتا ہے
کیا ہے اچھا یہاں برا کیا ہے

درمیاں رہ کے تم نہ سمجھو گے
ابتدا کیا ہے انتہا کیا ہے

جیتے رہتے ہیں مرتے رہتے ہیں
عشق والوں کی یہ ادا کیا ہے

مٹ ہی جائے گا ایک دن سب کچھ
آنکھ میں پھر غرور سا کیا ہے

دشمنوں میں گرے یہ سوچتے ہیں
دوستی نام کی بلا کیا ہے

ان کو عرفان سے شکایت ہے
یہ بتاتے نہیں خطا کیا ہے
۔۔۔۔۔
چمن اجڑا سا کیوں ویران سا کیوں ہے
خموشی میں نہاں طوفان سا کیوں ہے

بہ ظاہر تو نہیں ہے آرزو کوئی
مگر دل میں کوئی ارمان سا کیوں ہے

نہ جانے مجھ سے کیسی ہے اسے نسبت
وہ مدت سے مرا مہمان سا کیوں ہے

نوازا ہر ستم سے آپ نے مجھ کو
یہ مجھ پر آپ کا احسان سا کیوں ہے

ہزاروں بار پہلے بھی ملے ہیں ہم
مگر وہ آج کچھ حیران سا کیوں ہے

ہوا ہے جو نہ سوچا تھا نہ چاہا تھا
یہی تقدیر کا فرمان سا کیوں ہے

وہ اک اک بات سے واقف ہے گو عارف
مگر ظاہر میں پھر انجان سا کیوں ہے

۔۔۔۔
انہوں نے حمدیہ اور نعتیہ کلام بھی کہا ہے اور سلام ، منقبت اور نوحہ بھی لکھا ہے۔مثلاً
فرشتے کہہ کے یا صلی علیٰ پرواز کرتے ہیں وہ
نبی کے نور پر شمس وقمر بھی ناز کرتے ہیں
قسم ہے مشکلیں انکی سبھی آسان ہوتی ہیں
سفر کا یانبی کہہ کر کے جو آغاز کرتے ہیں
۔۔۔۔۔
میرے ایمان کا حاصل محمد یا محمد
میرا رستہ میری منزل محمد یا محمد
خدا کے بعدمیں کس کو پکاروں اس جہاں میں
مسلسل کہہ رہا ہے دل محمد یا محمد
۔۔۔۔۔۔۔
انسانیت کے نام کی توقیر ہیں حسین
قرآں کی بولتی ہوئی تفسیر ہیں حسین
نور ازل کے حسن کی تنویر ہیں حسین
انسانیت کے اوج کی توقیر ہیں حسین
ظلم و ستم کے جبر کی تاریخ ہے یزید
لیکن سراپا صبر کی تصویر ہیں حسین
امروز کی طرح دمِ فردا کے درمیاں
کرب و بلا کی آج بھی تدبیر ہیں حسین
میدانِ کارِ زار میں ظلمت کے درمیاں
نور ازل کی گونجتی تکبیر ہیں حسین
حسن عمل کا ان کے نہیں ہے کوئی جواب
مہر و وفا و لطف کی تصویر ہیں حسین
تکفیریت کا آج بھی میداں میں شور ہے
سارے جہاں میں نعرہ تکبیر ہیں حسین
روح خلیل عزم علی عہد مصطفٰی
ہر ایک عہد کے لئے اکسیر ہیں حسین
عرفان جس سے اب بھی فروزاں ہے دین حق
وہ روشنی وہ نور وہ تنویر ہیں حسین
باطل ہو جب بھی مد مقابل تو اس گھڑی
عارف کے عزم و خواب کی تعبیر ہیں حسین
۔۔۔۔۔۔
سب کی نظر میں صاحبِ کردار ہیں نانک
ہر قوم ہر اک فرد کی گفتار ہیں نانک

یہ نام مقدس ہے ہر اک دل میں بسا ہے
وحدت کے مبلّغ ہیں علم دار ہیں نانک

اِک نور سے اُپجے ہیں سبھی اُن کی نظر میں
اُس نور کی کرنوں کے پرستار ہیں نانک

عرفانؔ بیاں ایک غزل میں کروں کیا کیا
ساگر کی طرح بے کراں کردار ہیں نانک
۔۔۔۔۔

چند ہائیکو بطور نمونہ پیش خدمت ہیں

عیسیؑ ہیں مصلوب
سچ کہنے کا تیرا بھی
اچھا ہے اسلوب

دھوپ ہو چھاوں
مجھ کو اچھا لگتا ہے
بس اپنا ہی گاوں

اللہ کا فرمان
ہم تک پہنچانے والے
تجھ پہ ہم قربان

بکھر گیا ہے
زندگی بھر کا سرمایہ
کدھر گیا ہے

دھرتی ہے بنجر
اقوام لیے تو دہقاں نے
بیجے ہیں پتھر

قصّہ ہے دراز
قطرہ نا چیز ہوں گو
پر ہوں گہرا راز

دن بھر اُڑان سے
میں گھبرا کے دھو بیٹھا
ہا تھ اپنی جان

مٹی کا دیا
گھر کے باہر رکھتی ہے
اک اندھی بڑھیا۔

پیشکش :
“” سلمی صنم””

مصنف کے بارے میں

GNK Urdu

ایک تبصرہ چھ