یوم پیدائش

یوم پیدائش زبیر رضوی، 15/ اپریل 2023

اصلی نام :سید زبیر احمد رضوی
قلمی نام:زبیر رضوی
تخلص:زبیر
پیدائش:15اپریل 1935ء
امروہہ، ہندستان
وفات:20 فروری 2016ء

وہ ایک شخص
۔۔۔۔۔۔
جو انجمن سا رہتا تھا
۔۔۔۔۔۔
احمدجاوید
۔۔۔۔۔۔
’میں سسکیاں لے کر رونے کا قائل نہیں ہوں، درد کے حد سے گزرنے پر بھی بس آنکھوں کو نم کر لیتا ہوں‘۔یہ کہتے کہتے اس کی آنکھیں سچ مچ نم ہوگئیں اور چند جملوں کے بعد جن میں اہل اردو کی سہل پسندی کی جانب اشارہ اوروقت کی کروٹوں کاذکرتھا ،یہ کہہ کر اپنی نشست پر بیٹھ گیا کہ’ لگتا ہے میں کچھ زیادہ جذباتی ہوگیا ہوں‘۔حاضرین نے دیکھاکہ وہ اب اپنی سسکیاں روکنے کی کوشش کررہا ہےلیکن یہ کس کو معلوم تھا کہ یہ اس پر دل کا آخری دورہ ہے جس کے بعد اس کے چاہنے والوں کی سسکیاں سنبھالے نہیں سنبھلیں گی اورکئی لوگوں کی چیخیں نکل جائیں گی ۔
آپ ہی بتائیے کہ کوئی اس طرح بھی جاتا ہے کیا۔ہنستا کھیلتا ایک شخص ، جس کی مسکراہٹ محفلوں پرچھا جاتی تھی ، بھلا اسے اپنے چاہنے والوں کے درمیان سے اچانک اس طرح اٹھ کرچلے جانے کی کیا سوجھی کہ جب جب اس کاذکرآئے گاآنکھیں نم ہوجایاکریں گی کیونکہ وہ ایک شخص نہیں ایک انجمن تھا، ایک ذہن رسا اور ایک طرزفکرتھا لیکن اس کو اسی طرح جاناتھا اسی طرح گیا۔بھیڑ میں تنہااور تنہائی میں بھی انجمن نظر آنے والا یہ شخص کوئی اور نہیں ، لہرلہرندیاگہری ، خشت دیوار، دامن ، پرانی بات ہے اور سبزہ ٔ ساحل کا خالق زبیر رضوی تھاجس کی باتوں میں گہری دانشوری اور اس سے بھی گہرا درد ہوا کرتا تھا۔عجیب آدمی تھا، اپنے تیور اور اپنے لہجے سے مخاطب کو چونکاتاتھا،گھڑی بھر کو ٹھہر سوچنے پر ہربار مجبور کردیتا تھا، اس دن بھی اس نے چونکایا اور ایسا چونکایا کہ ہمیں اپنی آنکھوں پر یقین نہیں آیا مگر چارہ کیا تھا۔وہ کہہ کے گزرگیا اور ہم منھ دیکھتے رہے۔یہ گھڑی بھی ہماری ہی قسمت میں لکھی تھی کہ زبیر رضوی جیسے جیتے جاگتے انسان کو آخری ہچکیاں لیتے دیکھیں اور وہ ہمارے بازؤں میں دم توڑ دیں۔
زبیررضوی سے میری شناسائی بہت پرانی نہیں تھی۔یہی کوئی دس سال کی دیدوشنید اور وہ بھی اکثر سر راہے ۔ ویسے تو ہم ان کو ان ہی دنوں سےجانتے تھے جب لکھنا پڑھنا آیا،اردو کے معیاری رسائل و جرائد میں مخصوص زاویہ سے لی گئی ایک تصویر کے ساتھ چھپنے والی ان کی نظمیں ، غزلیں اور گیت متأثر کرتے تھے۔ستائیس سال پہلے جب انہوں نے ذہن جدید نکالنا شروع کیا تواس ادبی جریدے کے منفرد انداز اور مخصوص تیورنے اپنی جانب متوجہ کیا، شاید یہ اردو میں اپنی نوعیت کا واحد رسالہ تھا جو فنون لطیفہ کی جملہ اصناف کا احاطہ کرتا اور اپنے قارئین کو ہرفن کے رجحانات سے باخبر رکھتا تھا لیکن۲۰۰۶ء میں ہندوستان ایکسپریس کی اشاعت کے بعدان سے ہماری باقاعدہ راہ و رسم شروع ہوئی ،جب انہوں نے اس اخبار کی کسی تحریرپر اپنا ردعمل بھیجا اور اس سلسلے میں ایڈیٹر سے بات کرنا چاہی۔ وہ اس نوزائیدہ اخبار سےاچھی امیدیں رکھتے تھے۔ ان ہی دنوں اخبار کے اگزیکٹو ایڈیٹر انبساط احمد علوی کا انتقال ہوگیاجس سے ان کو بڑا صدمہ ہوا۔انہوں نے ایک تعزیتی تحریر میں اپنے گہرے رنج و غم کا اظہار کیا۔ پھر ہماری یہ راہ و رسم ملاقاتوں میں بدل گئی ۔ یاد نہیں آتا کہ پہلی ملاقات ان کے گھر ہوئی تھی یا سرراہے۔لیکن اس کے بعد آتے جاتے جب بھی ملتے ، دیر تک مختلف موضوعات پرگفتگو کرتے ، کبھی کبھی تو سڑک کے کنارے ہی باتیں کرنے لگتے اور ہر بار معلومات میں معتدبہ اضافہ کرجاتے۔ ذاکرنگر میں ہماری رہائشگاہوں کے درمیان زیادہ فاصلہ نہیں تھا، وہ اکثر بازار میں، صبح کی سیر کے دوران یا کہیں آتے جاتے مل جاتے، ملتے توبات گھوم پھر کر اردو ادب وصحافت کی صورت حال پرآجاتی۔ وہ اردو معاشرے کی بے خبری، لاعلمی اوراردو ادب وصحافت سے گم ہوتی دانشوری کی روایت پر گہرے رنج و فکر کا اظہارضرور کرتے۔ وہ ان ملاقاتوں میں یہ بھی بتاتے کہ وہ آپ کا اخبارپابندی سے پڑھتے ہیں اور یہ کہ میرا ہفتہ وار کالم ’فکرفردا ‘بھی ان کے مطالعہ میں آتا ہے۔ وہ اس کے مواد پر اطمینان کا اظہار بھی کرتے اورکمیوں کی نشاندہی بھی کرتے۔ویسے بھی وہ نوجوانوں کی صلاحیتوں کو نکھار نے اور ان میں فکری و فنی تخم ریزی کرنے کا کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہ دیتے تھے۔ کئی بار اس کا بھی ذکرکرتے کہ وہ اردو صحافت کی کم مایگی و بے سمتی سےجب بہت اکتاجاتے ہیں تب بھی کم ازکم اردو اخباروں کی اتوار کی اشاعتیں ضرور دیکھتے ہیں تاکہ اردوداں حلقوں اور معاشرے کے رجحانات سے باخبر رہیں۔کم ازکم میں نےاردو کے ادیبوں اور شاعروں میں ان سا باخبرشخص کسی اور کو نہیں پایا۔’ذہن جدید‘ بھی ان کی شخصیت کے اس پہلو کا عکاس ہوا کرتا تھا۔
زبیررضوی ایک زندگی سے بھرپور انسان کا نام تھا۔ابھی ایک سال قبل ایک ملاقات میں بتایا تھاکہ وہ شدیدبیمار تھے اور ابھی جلد ہی اسپتال سے آئے ہیں لیکن اس وقت بھی شاید ذہن جدید کی کچھ کاپیاں پوسٹ کرنے کے لیے نیوفرینڈزکالونی جارہے تھے۔ان کے جاننے والوں کو معلوم ہے کہ وہ اس جریدے کو تنہا ایڈٹ کرتے، اس کا مسودہ پڑھتے ، اس کے ادارتی نوٹ سے لے کر رسالے کے خریداروں کے پتے تک خود لکھتے لیکن اس کی اشاعت مسدود ہونے نہیں دیتے۔ حال ہی میں ایک ملاقات کے دوران بتانے لگے کہ جب انہوں نے اس رسالے کو جاری کیا تھا تو لوگ مذاق اڑاتے تھے، کچھ لوگ اب بھی پوچھتے ہیں’ذہن جدید‘ شائع ہورہا ہےکیا؟ لیکن انہوں نے ہمت نہیں ہاری، اور دو ڈھائی سو کاپی کے انفرادی خریداروں سے شروع ہونے والے اس رسالے کے مستقل خریداروں کی تعداد اب ایک ہزار (غالباً 850بتایاتھا)کےقریب ہے۔ وہ اپنی دھن کے پکے اور عمل کے انسان تھے۔ابھی صرف چھ ماہ قبل ان کے دل کی جراحی (انجیوپلاسٹی) کی گئی تھی لیکن وہ اب بھی اتنے ہی فعال و سرگرم تھے ، حال ہی میں ذہن جدید کا تازہ شمارہ شائع کیا تھا اور اپنی نظموں کا ایک انتخاب’ سنگ صدا‘ مرتب کیا تھا ۔ابھی دو ہفتے قبل قومی اردو کونسل کی عالمی اردو کانفرنس میں ملاقات ہوئی تو انقلاب کے ایڈیٹر شاہد لطیف کو بلاکر اپنے قریب بٹھا لیا،ممبئی میں مقیم اپنے دوستوں کی خیروعافیت دریافت کرنے لگے،ذہن جدید کا تازہ شمارہ اور سنگ صدا دیا جو بمشکل ہی وہ کبھی کسی کو اس طرح دیتے تھے، میری جانب بھی یہ دونوں ان الفاظ کے ساتھ بڑھایا ’چھپاسکو تو چھپالو‘۔دوران گفتگو انقلاب سے اپنے دیرینہ تعلق کا ذکر کرتے ہوئے یہ بھی بتایا کہ وہ ایک عرصہ تک اس کے لیے کالم لکھتے رہے اور ان کے موضوعات کتنے مختلف اور متنوع ہواکرتے تھے۔ وہ بائیں بازو کی ادبی تحریکوں کی جانب اپنے فکری جھکاؤ کے باوصف میڈیا میں کارپوریٹ کی سرمایہ کاری اور بازار کے بڑھتے دائرے کو اچھی نگاہ سے نہیں دیکھتے تھے لیکن وہ وقت کی رفتار سے منھ موڑنے یاچشم پوشی کرنےوالوں یا شتر مرغ کی طرح ریت میں منھ ڈال کرطوفان گزرجانے کا انتظار کرنے والوں میں نہ تھے۔ جو کچھ کرسکتے تھے اپنی بساط بھر کرتے رہے۔ناانصافیاں ان کو بے چین رکھتی تھیں ۔ ان کی سب سے بڑی خوبی ان کی شخصیت کا کھراپن تھا، جوان کے دل میں ہوتا زبان پر بھی وہی ہوتاتھا۔جو حق سمجھتے منھ در منھ کہہ دیتے تھے۔ اب کون ہے جو اردو کے ادبی حلقوں میں ان کی کمی پوری کرے۔ موت آنی ہے، ہرکسی کو آئے گی لیکن سانحہ تو یہ ہے کہ اب ہمارے معاشرے میں اپنی جگہ سے جو اٹھ کے جاتا ہے جگہ خالی چھوڑ جاتا ہے۔ ابھی ندافاضلی گئے، ان سے پہلے انتظار حسین اٹھ گئے ، اب زبیر رضوی بھی چلے گئے۔وہ کوئی کوہکن نہ تھے، ان میں سے کسی نے سنگ خاراسے جوئے شیر نہیں نکالا ،ہاں انہوں نے کانٹوں اور پتھروں کے درمیاں اپنی راہیں آپ ضرور نکالی تھیں اوران کی ذاتیں بہت سے لوگوں کے لیے سنگ میل اور مشعل راہ کا درجہ رکھتی تھیں لیکن ہماری بزموں میں ان سا بھی اب کون ہے؟ اپنی آخری تقریر میں بھی وہ اسی پر اظہار افسوس کررہے تھے کہ ہم لوگ کتنے سہل پسند ہیں، دور سے دیکھی ہوئی باتوں سے چیزوں کی تصویر بنالیتے ہیں جو ان کی اصلی تصویر نہیں ہوتی، قریب سے دیکھنے اور گہرائی میں اتر کر سوچنے کی زحمت نہیں کرتے۔وہ عمر کی نویں دہائی میں بھی محنت سے باز نہیں آئے تھے، سماج میں دانشور کی ذمہ داریوں کا احساس تھا کہ اب بھی ان کوبے چین رکھتاتھا۔ وہ اب بھی پڑھتےتھے اور چیزوں کو کھلی آنکھوں سے دیکھتے نہ کہ تعصبات یا تحفظات کی عینک سے، کسی تعلق سے کوئی رائے قائم کرنے سےپہلے اس کی گہرائی میں اترنے کی کوشش کرتے تھے پھر اپنی رائے دیتے اور اس پر مضبوطی سے قائم رہتے تھے۔ وہ اپنے پیچھے حق گوئی کی ایک بڑی مستحکم دانشوراانہ روایت چھوڑ گئے ہیں۔ کاش ! ہم ان کی وراثت کو آگے بڑھا پائیں۔
زبیر رضوی 1935میں امروہہ کے ایک دینی و علمی گھرانے میں پیدا ہوئے تھے۔ ان کی ابتدائی تعلیم ان کے دادا مولانا احمد حسن محدث امروہوی کے قائم کردہ دینی مدرسہ میں ہوئی۔ 1948میں والد کے ساتھ حیدرآباد منتقل ہوئے وہیں سے 1951میں ہائر سیکنڈری کرکے دہلی آئے جہاں ہمدرد میں ملازمت اختیار کی اور دورانِ ملازمت دہلی یونیورسٹی سے بی اے اور پھر ایم اے کیا۔ 1966 میں آل انڈیا ریڈیو میں اسکرپٹ رائٹر کی حیثیت سے شامل ہوئے اور ترقی کرتے کرتے دور درشن میں ڈائرکٹر کے عہدے سے سبکدوش ہوئے۔ شعروادب کا ذوق ان میں بچپن سے ہی تھا۔ آٹھویں جماعت میں تھے کہ ان کی پہلی غزل کراچی سے شائع ہونے والے رسالے ’ماہ نو‘ میں شائع ہوئی تھی۔ ویسے تو وہ ترقی پسند نظریات رکھتے تھے لیکن دین کے مخالف یا ملحد نہ تھے ، دین کی روح ان کے ایمان و اعتقاد میں رچی بسی تھی۔کم ازکم میں نے تو انہیں ایساہی پایا۔ وہ آزاد ہندوستان میں نوجوانوں کی اس نسل سے تعلق رکھتے تھے جس نے اس ملک اور یہاں کی اقلیتوں کا مستقبل سیکولرزم میں میں دیکھا اور سیکولرہندوستان کے استحکام کے لیے جیتے جی ہرممکن جدوجہد کی۔آج جب وہ ہمارے درمیان نہیں رہے، متحدہ قومیت کے نظریہ اورسیکولرہندوستان کو ہمیشہ سے زیادہ ایسے لوگوں کی ضرورت ہے۔
زبیررضوی کے مطالعہ کی طرح ان کے احباب کا حلقہ بھی بہت ہی وسیع تھا۔ شعروادب اور فنون لطیفہ کے ہرشعبے کی نامورہستیاں ان کے دوستوں میں شامل تھیں ۔ وہ اس وقت بھی یہاں سے اٹھ کر نیشنل اسکول آف ڈراما کو جانے والے تھےاور بتا رہے تھے ڈراما فیسٹول میں چوبیس زبانوں کے چورانوے ڈراموں میں سب سے زیادہ اردو کے چھ ڈراموں کو جگہ دی گئی ہے۔ انہوں نے آغاحشر کے بعد اردوڈراماکے زوال کی کہانی کو دلائل کے ساتھ رد کرتے ہوئے کہا کہ آج بھی ڈراما لکھا جارہا ہے اور اسے اسٹیج بھی کیا جارہا ہے، یہ اور بات ہے کہ ہمارے ناقدین ادب خود وہاں نظر نہیں آتے۔ وہ اردو کی اس نسل کی آخری نشانیوں میں تھےجن کو ملک کی دوسری زبانوں کے ادبی و علمی حلقوں میں بھی قابل لحاظ اثرورسوخ حاصل تھا، شعروادب ہی نہیں، مصوری ، بت تراشی، رقص اور موسیقی جیسے فنون پر بھی گہری نگاہ رکھتے تھے اور ہرفن پران کا اپنانظریہ بھی تھا۔لیکن وہ نوواردان بساط سے بھی اسی محبت سے ملتےاوران پر بھی اسی ساون کی طرح برستے جس کی چھوٹ مشہور تھی۔ وہ جب ملتے آپ کے علم میں اضافہ کرتے۔ ان کے آخری الفاظ ان کے چاہنے والوں کو نہ صرف برسوں رلائیں گے،اپنے اندر جو پیغام عمل رکھتے ہیں اس کودیر تک زندہ رکھیں گے۔وہ فلم ، ڈراما اور ریڈیو ٹی وی پر اردو کے اثرات و خدمات کے حوالے سے پیش کئے گئے مقالوں پر تبصرہ کرتے ہوئے کہہ رہے تھے کہ میڈیم اپنی زبان خود لاتا ہے اور یہ اردو کی اپنی قوت ہے جس نے اس کو ہردور میں میڈیم کی ضرورت بنائے رکھا۔وہ مختلف فنون لطیفہ سے اردو گہرے رشتے کا ذکر کرتے ہوئے اس پر افسوس کا اظہار کررہے تھے ہم لوگ چیزوں کی جو تصویر پیش کرتے ہیں وہ دور سے دیکھ کر بنائی ہوئی تصویر ہوتی ہے، چیزوں کی گہرائی میں اتر کر سوچنے سمجھنے کی زحمت گوارا نہیں کرتے۔ یہ کہتے کہتے وہ دل گرفتہ ہوگئے اور پھر آل انڈیا ریڈیو کی اردو سروس کی مثال پیش کی کہ یہ کس طرح چار گھنٹے کے پروگرام سے شروع ہوا، پھر آٹھ گھنٹے اور اس کے بعد چوبیس گھنٹے کا چینل بن گیا لیکن آج اس کی کیا حالت ہے۔اس کے بعد ان کی زبان پر یہ جملہ آیا۔ لگتا ہے میں زیادہ جذباتی ہوگیا اور وہ اپنی نشست پر آکر بیٹھ گئے۔ کس کو خبر تھی کہ ان سے ہماری یہ آخری ملاقات ہے اوراب ان سے پھر کبھی ملاقات نہ ہوگی۔آہ ! وہ شخص ہم سے ہمیشہ کے لیے جداہوگیاجوہماری بستی میں تنہا تھا لیکن ایک انجمن سا رہتا تھا۔

منتخب اشعار
۔۔۔۔۔۔
تم اپنے چاند تارے کہکشاں چاہے جسے دینا
مری آنکھوں پہ اپنی دید کی اک شام لکھ دینا

کیوں متاع دل کے لٹ جانے کا کوئی غم کرے
شہر دلی میں تو ایسے واقعے ہوتے رہے

دھواں سگرٹ کا بوتل کا نشہ سب دشمن جاں ہیں
کوئی کہتا ہے اپنے ہاتھ سے یہ تلخیاں رکھ دو

کچی دیواروں کو پانی کی لہر کاٹ گئی
پہلی بارش ہی نے برسات کی ڈھایا ہے مجھے

عورتوں کی آنکھوں پر کالے کالے چشمے تھے سب کی سب برہنہ تھیں
زاہدوں نے جب دیکھا ساحلوں کا یہ منظر لکھ دیا گناہوں میں

زندگی جن کی رفاقت پہ بہت نازاں تھی
ان سے بچھڑی تو کوئی آنکھ میں آنسو بھی نہیں

یہ لمحہ لمحہ تکلف کے ٹوٹتے رشتے
نہ اتنے پاس مرے آ کہ تو پرانا لگے

پرانے لوگ دریاؤں میں نیکی ڈال آتے تھے
ہمارے دور کا انسان نیکی کر کے چیخے گا

نظر نہ آئے تو سو وہم دل میں آتے ہیں
وہ ایک شخص جو اکثر دکھائی دیتا ہے

میں اپنی داستاں کو آخر شب تک تو لے آیا
تم اس کا خوب صورت سا کوئی انجام لکھ دینا

اپنی ذات کے سارے خفیہ رستے اس پر کھول دیے
جانے کس عالم میں اس نے حال ہمارا پوچھا تھا

جو نہ اک بار بھی چلتے ہوئے مڑ کے دیکھیں
ایسی مغرور تمناؤں کا پیچھا نہ کرو

سرخیاں اخبار کی گلیوں میں غل کرتی رہیں
لوگ اپنے بند کمروں میں پڑے سوتے رہے

کوئی ٹوٹا ہوا رشتہ نہ دامن سے الجھ جائے
تمہارے ساتھ پہلی بار بازاروں میں نکلا ہوں

جلا ہے دل یا کوئی گھر یہ دیکھنا لوگو
ہوائیں پھرتی ہیں چاروں طرف دھواں لے کر

وہ جس کو دور سے دیکھا تھا اجنبی کی طرح
کچھ اس ادا سے ملا ہے کہ دوستانہ لگے

گلابوں کے ہونٹوں پہ لب رکھ رہا ہوں
اسے دیر تک سوچنا چاہتا ہوں

نئے گھروں میں نہ روزن تھے اور نہ محرابیں
پرندے لوٹ گئے اپنے آشیاں لے کر

غضب کی دھار تھی اک سائباں ثابت نہ رہ پایا
ہمیں یہ زعم تھا بارش میں اپنا سر نہ بھیگے گا

بھٹک جاتی ہیں تم سے دور چہروں کے تعاقب میں
جو تم چاہو مری آنکھوں پہ اپنی انگلیاں رکھ دو

تم جہاں اپنی مسافت کے نشاں چھوڑ گئے
وہ گزر گاہ مری ذات کا ویرانہ تھا

ہم نے پائی ہے ان اشعار پہ بھی داد زبیرؔ
جن میں اس شوخ کی تعریف کے پہلو بھی نہیں

شام کی دہلیز پر ٹھہری ہوئی یادیں زبیرؔ
غم کی محرابوں کے دھندلے آئینے چمکا گئیں

کہاں پہ ٹوٹا تھا ربط کلام یاد نہیں
حیات دور تلک ہم سے ہم کلام آئی

اپنی پہچان کے سب رنگ مٹا دو نہ کہیں
خود کو اتنا غم جاناں سے شناسا نہ کرو

جاتے موسم نے جنہیں چھوڑ دیا ہے تنہا
مجھ میں ان ٹوٹتے پتوں کی جھلک ہے کتنی

عجیب لوگ تھے خاموش رہ کے جیتے تھے
دلوں میں حرمت سنگ صدا کے ہوتے ہوئے

ادھر ادھر سے مقابل کو یوں نہ گھائل کر
وہ سنگ پھینک کہ بے ساختہ نشانہ لگے

سخن کے کچھ تو گہر میں بھی نذر کرتا چلوں
عجب نہیں کہ کریں یاد ماہ و سال مجھے

ہائے یہ اپنی سادہ مزاجی ایٹم کے اس دور میں بھی
اگلے وقتوں کی سی شرافت ڈھونڈ رہی ہے شہروں میں

دور تک کوئی نہ آیا ان رتوں کو چھوڑنے
بادلوں کو جو دھنک کی چوڑیاں پہنا گئیں

وہ جس کو دیکھنے اک بھیڑ امڈی تھی سر مقتل
اسی کی دید کو ہم بھی ستون دار تک آئے

مصنف کے بارے میں

GNK Urdu

ایک تبصرہ چھ