ادبی خبریں

 داستانیں پہلے سنائی جاتی تھیں اب دکھائی جاتی ہیں فلموں اور سیریل کی صورت میں۔ پروفیسر ابن کنول

جی این کے اردو نیوز ڈیسک

داستانیں ہماری تہذیب و ثقافت کا بیش قیمتی سر مایہ ہیں:عارف نقوی

 داستانیں پہلے سنائی جاتی تھیں اب دکھائی جاتی ہیں فلموں اور سیریل کی صورت میں۔پروفیسر ابن کنول

شعبہئ اردو،سی سی ایس یو میں ”داستان کا آغازو ارتقا“ موضوع پرآن لائن پروگرام کا انعقاد

میرٹھ19/جنوری2023ء

”فکشن کی قدیم ترین صنف داستان ہے۔ ناول افسانہ اور افسانچہ اسی کی دین ہیں۔ واقعہ چھوٹا ہوتا ہے، اس کا بیان طویل ہو جاتا ہے،منظوم داستا نیں مقبول رہیں، سوانگ اور نو ٹنکی سب کی سب منظوم ہوا کرتی تھیں۔ انیسویں صدی میں داستانوں کو خوب فروغ حاصل ہوا۔یہ الفاظ تھے سا بق صدر شعبہ اردو،دہلی یو نیورسٹی کے پروفیسر ابن کنول کے جو آیو سا اور شعبہ اردو کے زیر اہتمام منعقد ”داستان کا آ غاز و ارتقار“ موضوع پر مہمان خصوصی کی حیثیت سے اپنی تقریر میں آن لائن ادا کررہے تھے۔انہوں نے مزید کہا کہ اس عہد کی تہذیب اور ثقافت و معاشرت کا مطالعہ داستانوں کے مطالعے کے بغیر ممکن نہیں۔ زبان و اسلوب، منظر نگاری،مکالمہ نگاری وغیرہ کے لیے بھی داستان کا مطالعہ ضروری ہے۔آج کے فکشن نگاروں کو اس کا مطالعہ انتہائی لازمی ہے۔ داستان بیان کا فن ہے۔جتنی طویل ہوگی اتنی ہی دلچسپ ہوگی۔ داستان قوت متخیلہ کا فن ہے۔ داستانیں پہلے سنائی جاتی تھیں اب دکھائی جاتی ہیں فلموں اور سیریل کی صورت میں۔

اس سے قبل پرو گرام کا آغاز شاکر مطلوب نے تلا وت کلام پاک سے کیا۔بعد ازاں عظمیٰ نے ہدیہ نعت پیش کیا۔اس ادب نما پروگرام کی سرپرستی معروف ناقد و افسانہ نگار اور صدر شعبہ اردو پروفیسر اسلم جمشید پوری اور صدارت کے فرائض معروف ادیب عارف نقوی، جرمنی نے انجام دیے۔مقالہ نگاران کے بطور جموں سے ڈاکٹر غلام نبی کمار اور لکھنؤ سے آیوسا کی صدر ڈاکٹر ریشما پروین نے شرکت کی۔استقبالیہ کلمات ڈاکٹر شاداب علیم، نظامت ڈاکٹر آصف علی اور شکریے کی رسم ڈاکٹر تابش فرید نے انجام دی۔

آ یو سا کی صدر ڈا کٹر ریشما پروین نے کہا داستانیں ادبی سرمائے کے ساتھ ساتھ زندگی کے مختلف مراحل میں ہماری رہنمائی کرتی ہیں، ہمیں جینے کا سلیقہ سکھاتی ہیں اور معاشرتی زندگی کو بہتر بنانے میں معاون ثابت ہوتی ہیں۔

معروف ناقد و افسانہ نگار اور صدر شعبہ اردو پروفیسر اسلم جمشید پوری نے مقالہ نگاروں کا تعارف پیش کرتے ہوئے کہا کہ ابراہیم افسر نے تحقیق کو نئی سمت دینے کی کوشش کی ہے۔ غلام نبی کمار کی نظر تحقیقی ہے۔ داستان سننا سنانا انسان کی فطری جبلت ہے۔ قر آن اور تمام مذہبی کتابوں میں داستانی قصے موجود ہیں۔ناولوں، افسانوں اور افسانچوں کی صورت میں داستانوں کا ارتقا جا ری ہے۔

اپنے صدارتی خطبے میں جرمنی سے معروف ادیب و شاعر عارف نقوی نے کہا کہ آج کا یہ پروگرام نہایت اہمیت کا حامل ہے جو ایک اہم موضوع پر منعقد ہو رہا ہے۔ہندوستان میں جو زبانیں بولی جاتی ہیں ان سب میں بے شمار داستانیں ہیں۔ ہمیں ان سے استفادہ کرنا چا ہئے۔خود اردو کی بے شمار داستانیں ابھی تک غیر مطبوعہ شکل میں کتب خانوں اور ذاتی ذخیروں میں موجود ہیں۔ ان کی اشاعت کا بھی کوئی منصوبہ بنایا جانا چاہئے۔داستانیں ہماری تہذیب و ثقافت کا بیش قیمتی سر مایہ ہیں۔

اس مو قع پر ڈاکٹر ارشاد سیانوی، سعید احمد سہارنپوری، محمد شمشاد عبد الواحد، فیضان ظفر اور دیگر طلبہ و طالبات موجود رہے۔

مصنف کے بارے میں

GNK Urdu

ایک تبصرہ چھ