تبصرے کتاب شناسی

سہ ماہی دربھنگہ ٹائمز (اکتوبر تا دسمبر)، گوشہ پروفیسر خالد جاوید ، مبصر ڈاکٹر احسان عالم

جی این کے اردو

14 جنوری 2022

ڈاکٹر احسان عالم
پرنسپل الحراء پبلک اسکول، دربھنگہ
سہ ماہی ”دربھنگہ ٹائمز“ (اکتوبر تا دس

مبر 2022ء):


تخلیقی ذہن اور فعالیت کا علمبردار
(پروفیسر خالد جاوید پر خصوصی گوشہ کے ساتھ)

دربھنگہ سے کئی رسائل و جرائد نکلتے رہے ہیں۔ ان میں کئی رسائل و جرائد مرحوم کی صف میں آچکے ہیں لیکن چند رسالے تواتر کے ساتھ شائع ہورہے ہیں۔ تواتر سے شائع ہونے والے رسائل میں ایک اہم رسالہ سہ ماہی ”دربھنگہ ٹائمز“ ہے جو ڈاکٹر منصور خوشتر کی ادارت میں پابند ی کے ساتھ قارئین کے ذہن پر دستک دینے کے لیے تیار رہتاہے۔ ”دربھنگہ ٹائمز“ کا شمارہ اکتوبر تا دسمبر 2022ء منظر عا م پر آچکا ہے۔
رسالہ کے مدیر ڈاکٹر منصور خوشتر کے بارے میں پہلے بھی بہت کچھ لکھ چکا ہوں۔ بہت سے تنگ نظر لوگ یہ سمجھیں گے یہ چمچا گری ہے۔ لیکن یہ حقیقت ہے کہ ڈاکٹر منصور خوشتر میں ایک جنون ہے، کچھ کر گزرنے کا حوصلہ ہے۔ دماغ کے اندر ایک ہلچل سی اٹھتی ہے جو ان کے جسم کو حرکت میں رکھتی ہے۔ رات کے گیارہ بارہ بجے کبھی کبھار اپنا موبائل گھماتا ہوں تو وہ شخص کمپیوٹر پر بیٹھا کوئی نہ کوئی کام کر رہا ہوتا ہے۔ یہ جنونی کیفیت انہیں بلندیوں پر لے جانے کی راہ میں ایک بڑا قدم ہے۔ اللہ کرے زور قلم اور زیادہ۔
پروفیسر خالد جاوید کے ناول ”نعمت خانہ“ کو ’جے سی بی ایوارڈ‘ دیئے جانے کی خوشی میں ”دربھنگہ ٹائمز“ نے ایک پُر مغز گوشہ شائع کیا ہے۔ قارئین یقینی طور پر اس گوشہ کو پسند کریں گے اور اس سے مستفید ہوں گے۔ اس سے قبل بھی رسالہ ہذا نے مختلف نمبر اور گوشے شائع کئے ہیں۔ تمام نمبروں اور گوشوں کی جھنکار اردو شائقین کے ذہن و دل میں ایک سرگم چھیڑتی ہے جس کی گونج سے وہ طویل عرصوں تک محظوظ ہوتے رہتے ہیں۔ اس رسالہ نے اتنے جامع اور بسیط نمبرات شائع کئے ہیں جس کے مطالعہ کے دوران قارئین کی انگلیاں تھک جاتی ہیں لیکن ذہن اگلے شمارے کا منتظر ہوتا ہے۔ رسالہ کے مدیر ڈاکٹر منصور خوشتر مبارکباد کے مستحق ہیں۔
زیر مطالعہ شمارہ میں گوشہ پروفیسر خالد جاوید سے متعلق سات مضامین ہیں۔ پہلا مضمون ”جے سی بی انعام کی اہمیت اور نعمت خانہ کی پذیرائی کا حق“ کے عنوان سے ہے جسے خورشید اکرم نے کاغذی پیرہن عطا کیا ہے۔ اپنے مضمون میں موصوف لکھتے ہیں:
”نعمت خانہ اردو میں 2104 میں شائع ہوا تھا۔ یہ خالد جاوید کا دوسرا ناول تھا۔ پہلا ناول ’موت کی کتاب‘ 2011 میں شائع ہوا تھا۔ اس سے پہلے ان کے دو افسانوی مجموعے ’برے موسم میں‘ اور ’آخری دعوت‘ شائع ہو چکے تھے۔….جے سی بی لٹریچر فاؤنڈیشن نے ہندوستانی ادب کو دنیا کے سامنے پیش کرنے کی غرض سے پانچ برس پہلے ۸۱۰۲ میں انعام کا سلسلہ شروع کیا۔ خالد جاوید پانچویں ناول نگار ہیں جنہیں یہ انعام ملا۔(ص:9)
پروفیسر کوثر مظہری نے ”خالد جاوید کو جے۔ سی۔ بی ایوارڈ ملنے پر“ کے عنوان سے اپنے تاثرات کا اظہار کیا ہے۔ اپنے تاثرات میں موصوف لکھتے ہیں کہ اردو فکشن کی تاریخ میں خالد جاوید ایک قیمتی اضافے کی حیثیت رکھتے ہیں۔ حال ہی میں انہوں نے پوری اردو دنیا ہی نہیں بلکہ ہندوستان کی مختلف زبانوں میں لکھنے والوں کو صرف چونکا یا ہی نہیں بلکہ پیچھے چھوڑ دیا ہے۔ ان کے تیسرے ناول نعمت خانہ کے انگریزی ترجمہ Paradise of foodکے نام سے پروفیسر باراں فاروقی نے کیا تھا جسے JCBکی طرف سے دس تخلیقی کتب میں اور پھر پانچ میں شامل کیا اور آخر کار یہ قرعہئ فال اردو کے نام ہی آیا۔ اس دوڑ میں بوکر پرائز سے سرفراز ہونے والی گیتا نجلی شرما بھی شامل تھیں۔ ظاہر ہے کہ یہ پچیس لاکھ کا ایوارڈ اردو والوں کے لیے نہایت ہی حوصلہ افزا ہے۔ ساتھ ہی مترجم کو الگ سے دس لاکھ دیئے گئے۔
”معاصر اردو ناول کا شناخت نامہ:نعمت خانہ“ کے عنوان سے ڈاکٹر مجیر احمد آزاد نے ایک جامع مضمون قلمبند کیا ہے۔ اپنے مضمون میں وہ لکھتے ہیں کہ خالد جاوید اردو فکشن کا ایک توانا اور معتبر نام ہے۔ان کی تخلیقات عصری صورت اور تقاضے سے لبریز اور اظہار کے منفرد انداز کے سبب پسند کئے جاتے رہے ہیں۔بطور خاص ادب کا ایک سنجیدہ حلقہ ان کی تحریروں کا مداح رہا ہے۔ان کا اختصاص موضوع کو برتنے اور اپنی فکر کے لئے نئے ڈکشن کی تلاش میں کامیابی سے عبارت ہے۔ انہوں نے وہ موضوعات چنے جن کا دائرہ امکانی طور پر بے حد وسیع ہے۔انسان اور معاشرے کے جبر کی گاتھا ان کے دلچسپ زبان میں فکش کا وہ حصہ ہیں جن پر بجا طور پر رشک کیا جا سکتا ہے۔”برے موسم میں“(افسانے)،”آخری دعوت“ (افسانے)، ”تفریح کی ایک دو پہر“(افسانے)،”موت کی کتاب“(ناول)،”میلان کنڈیرا“(ناول)،”نعمت خانہ“(ناول)وغیرہ کے قرأت سے یہ کہنا آسان ہو جاتا ہے کہ انہوں نے مشاہدات و تجربات کو جو زبان دی ہے اس میں ایک قسم کی تازگی اورنیا پن ہے۔گرچہ انہوں روایت کو بھی یکسر رد نہیں کیا بلکہ نئی راہ بنانے اور منزل کی جانب اپنے سفر کو مدام رکھا ہے۔ان کے دیگر ناولوں کی طرح ”نعمت خانہ“(مطبوعہ:۴۱۰۲ء) نے بھی معاصر ادبی فضا میں اپنی بھرپور موجودگی کا احساس کرایا۔ناول نگار کی اختراعی قوت اور دوسری زبانوں کی تخلیقات کے مد مقابل اس ناول کا پسند کیا جانا اور JCB ایوارڈ سے نوازا جانا اردو ادب کے لئے بڑی کامیابی اور نیک شگون ہے۔
”خالد جاوید: بحیثیت ناول نگار“ کے عنوان سے ڈاکٹر محمد نہال افروز نے ایک عمدہ مضمون تخلیق کیا ہے۔ وہ لکھتے ہیں کہ خالد جاوید کا شماراردو کے جدید افسانہ نگاروں میں ہوتاہے۔انہوں نے افسانے اور ناول کے میدان میں ایک نیا اور منفرد بیا نیہ ایجاد کیا ہے۔ایسا بیانیہ جوانھیں کا خاصہ،جو نہ صرف ادبی مشمولات بلکہ ادب کی مابعد الطبیعیات کو بھی اپنے اندر سمیٹ لیتا ہے۔دور حاضر کے معتبرنا قدین شمس الرحمن فاروقی، شمیم حنفی، وارث علوی، عتیق اللہ وغیرہ نے ان کی کہانیوں کو غیرمعمولی قرار دیا ہے۔خالد جاوید کو کہانی کار بنانے میں ان کی پھوپھیوں کا اہم رول رہا ہے۔ آج کے اس جدید دور میں وہ بحیثیت افسانہ نگار اور ناول نگار فکشن کائنات میں اپنی شناخت بنانے میں کامیاب نظر آتے ہیں۔
”کابوسی ادب کا تخلیق کار: خالد جاوید“ کے عنوان سے ڈاکٹر عاصم بدر لکھتے ہیں کہ خالد جاوید وقت کی قید سے آزاد ایک ایسے کہانی کار کا نام ہے، جس نے لفظوں کو جسم عطا کیا، ایسا جسم جس میں مجسم ہو کر ادھورے لفظ اپنی تشنہ خوابی کو پورا کر رہے ہیں۔ ایسا جسم جو بھربھرا نہیں اور جس میں لفظ محض آڑھی، ٹیڑھی ہوا میں ناچتی لکیریں نا ہو کر ٹھوس گوشت پوست کا بدن رکھتے ہیں اور جسے ادا کرتے ہوئے ذہن کے پردے پر کچھ اٹا، مٹا سا نہیں بل کہ پورا سالم اور روشن وجود ظاہر ہوتا ہے۔
”نظام حروف کی نئی جمالیات: نعمت خانہ“کے عنوان سے خورشید حیات کا ایک انٹرویو ا س گوشہ میں شامل ہے۔ اپنے منفرد اورمخصوص لہجے میں موصوف لکھتے ہیں کہ پروفیسر خالد جاوید سے میری ملاقات دہلی میں کبھی نہیں ہوئی تھی البتہ ان کی کہانیوں اور ناولوں کے زندگی رنگ کرداروں سے میری ملاقات ہوتی رہی ہے۔ جب جے سی بی ایوارڈ 2022 کی خبر مجھ تک پہنچی تو میں جامعیہ ملیہ اسلامیہ کے شعبہ اردو میں جاکر ان سے ملاقات کے لئے تڑپ اٹھا۔ محبت کی شدت اور تڑپ کا اندازہ تب کچھ اور ہوتا ہے۔ جب بات اردو زبان کی ہو۔ ایک ایسی زبان کی ہو جو لکیروں کو مٹاتی ہے۔ ارد ووالوں کے لئے یہ فخر کا مقام تو ہے ہی، جامعہ ملیہ اسلامیہ کے لئے بھی یہ بہت بڑا اعزاز ہے جس کے شعبہ اردو کی اپنی سنہری تاریخ رہی ہے۔
خالد جاوید کے ناول ”نعمت خانہ“ کا ایک طویل حصہ بھی رسالہ میں شامل ہے جو قارئین کی دلچسپی کا باعث ہے۔
دیگر مضامین کے باب میں پہلا مضمون ”کووِڈ- 19 کا حاصل جامِ جہاں نما“کے عنوان سے ہے جو عتیق اللہ صاحب کے احساسات و جذبات کی ترجمانی ہے۔ اپنے اس مضمون میں موصوف لکھتے ہیں کہ کورونا کے تھپیڑے نے تمام اچھی بری عادتوں پر پانی پھیر دیا۔ جن لوگو ں کو ہمیشہ فضولیات میں گرفتار دیکھا تھا۔ اللہ رسولؐ کی باتیں کرتے ہوئے نظر آئے۔ جن کے ہاتھوں میں کبھی کتاب نہیں دیکھی تھی، کلام پاک کی تلاوت میں منہمک پائے گئے۔ یہ تو سنتے آئے ہیں کہ بڑھاپے میں بیوی پر بہت پیار آنے لگتا ہے لیکن بعض نوجوان اپنی بیویوں پر لٹو دکھائی دیے اور بعض نے اپنی بیویوں کو مائیکے بھیج دیا۔ بعض گھروں میں 24 گھنٹے بوڑھوں کی موجودگی، ان کی روک ٹوک، ان کی کھانسی، نزلہ زکام کوفت کا باعث تھی اور بعض گھروں میں شوہر اور بیوی کے درمیان رات دن شکوہ و شکایت، نوک جھونک ہوتی رہتی ہے۔ آمدنی کی راہیں کیا مسدود ہوئیں کئی گھر میدان جنگ بن گئے۔ کئی گھروں میں چولھے آگ کو ترستے رہ گئے۔ بچوں کے اسکول کیا بند ہوئے گھروں میں چاروں پہر انھیں کی حکومت ہوگئی۔
جاوید حسن کا ایک جامع مضمون ”حبیب تنویر کے ڈراموں میں ہندوستانی تہذیب“ کے عنوان سے ہے اس مضمون میں مضمون نگار حبیب تنویر سے متعلق لکھتے ہیں کہ جدیداُردو ڈرامے اور تھیٹرکے حوالے سے حبیب تنویر کا نام کسی تعارف کا محتاج نہیں۔ وہ بیک وقت ہندی اوراردو کے مشہور ڈراما نگار کے ساتھ ساتھ ایک عظیم ہدایت کار، اداکار اور شاعر تھے۔ وہ ایک ترقی پسند مفکر، انسان دوست عوامی فنکار بھی تھے اور بقول مشہور فلم ڈائریکٹر شیام بینیگل ”حبیب تنویر بلا شبہ ایک عظیم پروڈیوسر اور ہندوستانی تھیٹر کے علمبردار تھے۔“حبیب تنویر کا شمار اُن ڈراما نگاروں میں ہوتا ہے جنھوں نے ہندوستانی تھیئٹر کی کردار سازی کا کام بہت دِلجوئی اور اِنہماک کے ساتھ انجام دیا۔تھیٹر میں اُن کی نمایاں کامیابی و مقبولیت اُن کی زندگی بھر کی مشق اور لگن کی وجہ سے تھی۔
”شموئل احمدکاناول”چمراسر“ کے عنوان سے سید احمد قادری کا ایک عمدہ مضمون رسالہ کی زینت بنا ہے۔ وہ لکھتے ہیں کہ شموئل احمدنے یوں توکئی ناول لکھے ہیں۔لیکن ان کا ناول ”چمراسر“مختلف نوعیت کاہے،جوعہدحاضر میں دلت سماج پربڑھتے جبروظلم،ناانصافی اور استحصال جیسے اہم موضوع پرمبنی ہے۔ہمارے ملک میں دلت سماج، کاوہ طبقہ ہے جوبرسہابرس سے سیاسی،سماجی،معاشی،مذہبی،تعلیمی،تہذیبی وثقافتی استحصال کاشکارہے۔اب توان استحصال کے خلاف لکھنے،بولنے کی بھی اجازت نہیں ہے۔ان اہم مسائل پر بڑی گہرائی وگیرائی سے مطالعہ ومشاہدہ کے بعد شموئل احمد نے اس ناول کاتانابانا بننے کی جرأت کی ہے۔ خاص بات یہ ہے کہ ان دلت مسائل کو ماضی اور عہد حاضر سے جوڑتے ہوئے استحصال کے خلاف باغیانہ رویہ کوسامنے لانے کی انہوں نے ہمت دکھائی ہے۔
ڈاکٹر امام اعظم نے ڈاکٹر منصور خوشتر کی تازہ کتاب ”طرز اظہار“ پر روشنی ڈالتے ہوئے لکھتے ہیں کہ! ڈاکٹر منصور خوشتر کی زیرِ نظر کتاب ”طرزِ اظہار“ میں اظہار کا سلیقہ و طریقہ بخوبی ملتا ہے۔ چھوٹے چھوٹے جملوں سے وہ اپنی بات قارئین کے ذہن و دل میں اتارنے میں کامیاب ہوئے ہیں۔ اس کتاب کی مختصر تبصراتی تحریروں کے رواں اسلوب میں تنقیدی موشگافیاں موجود ہیں جن سے قاری نہ صرف بیک نظر زیرِ تبصرہ کتابوں سے متعارف ہوجاتا ہے، بلکہ صاحبِ کتاب کے ادبی مرتبے کا بھی پتہ چلتا ہے۔ اس طرح یہ کتاب ڈاکٹر منصور خوشتر کی ادبی پیش رفت میں ایک نمایاں قدم تسلیم کی جاسکتی ہے۔
راقم الحروف (ڈاکٹر احسان عالم) کی کتاب ”آئینہ تنقید“پر روشنی ڈالتے ہوئے ڈاکٹر عبدالرافع (اسسٹنٹ پروفیسر، شعبہئ اردو، ملت کالج دربھنگہ) نے”احسان عالم کے تنقیدی انفراد و اختصاص“کے عنوان سے ایک طویل مضمون تقریباً پندرہ صفحات میں تحریر کیا ہے۔ یہ مضمون انتہائی جامع اور بسیط ہے۔
ڈاکٹر محمد سالم کا ایک مضمون ”اردو افسانے کا نمایاں نام: علی عباس حسینی کے عنوان سے ہے۔ اس مضمون میں محمد سالم لکھتے ہیں کہ اردو افسانہ نگاری میں علی عباس حسینی کا بلند و بالا مقام ہے۔ انہوں نے پریم چند کی طرح اپنے افسانوں میں حقیقت پسندی کو ترجیح دی ہے۔ ہندوستان کی سماجی زندگی کو انہوں نے بڑی خوبی اور اور ہوشیاری کے ساتھ برتا ہے۔ گاؤں میں رہنے والے لوگوں کی سیدھی سادی زندگی، کھیت کھلیانوں کی بوباس کے ساتھ شہری مسائل کا عمیق مطالعہ ان کے افسانوں کا بنیادی موضوع ہے۔ دیہی اور شہری زندگی کی عکاسی، محنت کش کسانوں اور مزدوروں کی کسمپرسی، بے بسی اور مجبوری ان کے افسانوں میں پوری طرح جلوہ گر ہیں۔
سلیم انصاری (جبل پور)”حکیم دمری:ایک نابغہئ روزگار شخصیت“ کے عنوان سے اپنے مضمون میں لکھتے ہیں کہ دنیا میں کچھ شخصیات ایسی ہوتی ہیں جو نہ صرف برسوں بلکہ صدیوں تک نسلوں کے حافظے میں رہتی ہیں بلکہ اپنے کارناموں اورر سماجی خدمات کے سبب معاشرے کے مشترکہ شعور (COLLECTIVE CONSIOUSNESS) کا نہ صرف نا قابلِ فراموش حصہ بن جاتی ہیں بلکہ طویل عرصہ تک ذہنوں ذہنوں سفر کرتی رہتی ہیں۔ایسی ہی خوش نصیب اور دل پزیر شخصیات میں شمار ہوتا ہے مرحوم حکیم سید الطاف حسین عرف حکیم دمری صاحب کا جو دربھنگہ شہر اور آس پاس کے علاقے میں بے حد مشہور طبیب اور قابلِ ذکر ادیب تھے۔حکیم دمری صاحب کی شہرت کی ایک وجہ یہ بھی تھی کہ ان کے اندر جذبہئ خدمتِ انسانیت کوٹ کوٹ کر بھرا ہوا تھا۔وہ جہاں ایک طرف مشہور و معروف اور ماہر طبیب اور بہترین نباض تھے وہیں ایک خدا ترس اور نیک دل انسان،دین دار، خوش مزاج،غریب پرور اور فرشتہ صفت انسان بھی تھے۔ اللہ نے ان کے ہاتھ میں شفا رکھی ہوئی تھی، وہ بغیر کسی جانچ پڑتال کے محض نبض دیکھ کر ہی دوائیں تجویز کردیا کرتے تھے۔
ڈاکٹر محمد ایوب کا ایک مضمون ”علامہ اقبال ایک آفاقی شاعر“کے عنوان سے لکھتے ہیں کہ اقبال اپنے عہد کے دانائے راز تھے۔قوم کے نباض اور صحیح معنی میں مسلم مفکر تھے۔ شعور کی پختگی سے لے کر بستر مرگ تک وہ ماضی وحال کا موازنہ کرتے رہے۔ اور یہی انداز فکر ان کی شاعری کا مرکزی خیال رہا۔ان کی اردو اور فارسی شاعری اسی مرکزی نقطہ فکر کی حامل تھی۔گویا انہوں نے شاعری ادب برائے ادب کے نام پر نہیں کی بلکہ شاعری کو اپنے جذبات وافکار کی ترسیل کا ذریعہ بنایا۔
ڈاکٹر فیضان حسن ضیائی کا ایک مضمون ”فردنامہ کلیم الدین احمد: شہاب ظفر اعظمی کا تحقیقی کارنامہ“کے عنوان سے شامل اشاعت ہے۔ اس مضمون میں پروفیسر شہاب ظفر اعظمی کی کتاب ”فردنامہ کلیم الدین احمد“ کے حوالے سے گفتگو کی گئی ہے۔ مضمون نگار لکھتے ہیں کہ جن شخصیات پر مونوگراف شائع کرائے ہیں اسی سلسلے کی ایک اہم کڑی فرد نامہ۔۴ کلیم الدین احمد ہے،جسے معاصر تنقید کے ایک صاحب فکر قلم کار ڈاکٹر شہاب ظفر اعظمی نے مونو گراف کے اصول و ضوابط کے مد نظر بڑی سرعت،دلجمعی اور سنجیدگی کے ساتھ اس مکمل کیاہے۔یہ کتاب ایک سو بیس صفحات پر مشتمل ہے۔
علیزے نجف نے ”مکرم نیاز کا افسانوی مجموعہ ”راستے خاموش ہیں ” کا ایک معروضی جائزہ پیش کیا ہے۔ وہ رقم طراز ہیں:مکرم نیاز کی تکنیکی دلچسپی اور صلاحیت نے بیشمار نوجوان قلمکاروں کو ابھرنے کا موقع دیا ہے ایک دہائی سے زیادہ عرصے سے وہ تعمیر نیوز ویب سائٹ کے تحت اردو ادب کی نشو و نما میں قابل ذکر کردار ادا کر رہے ہیں۔ پروفیشن کے اعتبار سے اگرچہ وہ ایک انجینئر ہیں۔ لیکن ان کا ادبی ذوق ایسا ہے جس پر سوال اٹھانے کا سوال پیدا ہی نہیں ہوتا۔ کیوں کہ ان کو یہ ادبی ذوق اور اعلی اسلوب ان کے والد کی طرف سے ورثہ میں ملا ہے۔ انھوں نے اس وراثت کی آبرو کو کبھی بھی ضرب نہیں پہنچنے دی۔ قلم کے ذریعے اردو ادب کی خدمت کرنے کے ساتھ ساتھ مختلف جہات میں انھوں نے اپنے آپ کو سدا مصروف عمل رکھا ہے۔
رسالہ کے آخر میں کئی دلچسپ افسانے، نظمیں اور غزلیں شامل ہیں جو رسالہ کے اہمیت میں مزید اضافہ کرتی ہیں۔ مختلف حضرات کے ذریعے کئے گئے تبصرے کتابوں کا عمدہ تعارف کراتے ہیں۔ خطوط کے باب میں کئی نامور ہستیوں کے خطوط شامل ہیں۔ آخرمیں چند اہم تصاویر سے رسالہ کو مزین کیا گیا ہے، ساتھ ہی ویسے چند اہم پروگرام کی جھلکیاں پیش کی گئی ہیں جو المنصور ایجوکیشنل اینڈ ویلفیئر ٹرسٹ کے ذریعہ حالیہ دنوں میں منعقد کئے گئے۔
اس طرح دربھنگہ ٹائمز کا یہ شمارہ گذشتہ شماروں کی طرح دستاویزی حیثیت کا حامل ہے۔ ایک بار پھر رسالہ کی اشاعت کے لیے اس کے مدیر ڈاکٹر منصور خوشتر کو بہت بہت مبارک باد۔
٭٭٭
Dr. Ahsan Alam
Ahmad Complex, Near Al-Hira Public School
Moh: Raham Khan, P.O. Lalbagh, Darbhanga – 846004
Mob: 9431414808

مصنف کے بارے میں

GNK Urdu

ایک تبصرہ چھ