خبریں ریاستی

مدارس براہ راست ملک کی تعمیر و ترقی میں حصّہ لے رہے ہیں۔ڈاکٹر حافظؔ کرناٹکی

جی این کے اردو

28/اگست 2022

مدارس کے تعلیمی سروے کے سلسلے میں مدرسہ مدینۃ العلوم میں ایک ہنگامی نشست

کسی بھی سروے سے نہ ڈریں۔ یہ مدارس صفہ نبوی ﷺکی علامت ہیں۔ ملّی اثاثے ہیں، قومی اور ملکی خدمت کے گہوارے ہیں۔ یتیموں، غریبوں اور لاوارث بچوں کے لیے علمی، اور تربیتی پناہ گاہیں ہیں۔ یہ بچے ملک کی امانت ہیں۔ جنہیں ضائع ہونے سے مدارس بچارہے ہیں۔ اس طرح مدارس براہ راست ملک کی تعمیر میں حصّہ لے رہے ہیں۔ڈاکٹر حافظؔ کرناٹکی

پرمود متالک کو فون لگا کر کہا کہ آپ ہی جیسے لوگ مدارس، مسلمان، اور علماء کے بارے میں شکوک و شبہات پیدا کرتے رہتے ہیں۔ میں آپ کو دعوت دیتا ہوں۔ آپ شکاری پور آئیے میں آپ کو مدرسہ مدینۃ العلوم اور گلشن زبیدہ کی سروے کراتا ہوں۔ تب آپ کو معلوم ہوگا کہ ایک آئیڈیل اسلامی تعلیمی انسٹی ٹیوشن کیسا ہوتا ہے۔جناب ہچرایپّا ضلعی صدر کنڑا صحافتی تنظیم

آج بروز جمعہ ۶۲/اگست ۲۲۰۲ء؁ کو جامعہ مدینۃ العلوم شکاری پور میں ایک ہنگامی نشست کا انعقاد کیا گیا۔ اس نشست کی صدارت کے فرائض ڈاکٹر حافظؔ کرناٹکی نے اداکیے۔ جبکہ نظامت کے فرائض جناب فیاض احمد صاحب صدر ایچ،کے،فاؤنڈیشن شکاری پور نے ادا کیے۔
نشست کا باضابطہ آغازمحمد کاشف کی قرأت کلام پاک سے ہوا۔ اس کے بعد محمد حذیفہ نے نعت سنائی۔
جناب فیاض صاحب نے نظامت کرتے ہوئے آج کی نشست کی غرض و غایت پرروشنی ڈالی اور کہا کہ وزیر تعلیم کرناٹک کے بیان سے بعض مدارس کے ذمہ دار شکوک و شبہات کے شکار ہوگئے ہیں۔ ایسی صورت حال میں یہ ضروری ہو جاتا ہے کہ مدارس کے بعض ذمہ دار جو ہر طرح کی سوجھ بوجھ رکھتے ہیں وہ مدرسہ کے منتظمین اور اساتذہ و طلبا کی رہنمائی کریں۔ چنانچہ انہوں نے سلسلہ کلام کو آگے بڑھاتے ہوئے مولانا محمد عرفان رشادی کو دعوت دی۔
مولانا محمد عرفان رشادی نے کہا کہ جیسا کہ سبھی لوگ جانتے ہیں کہ مدرسے میں بنیادی اسلامی تعلیم کے ساتھ ساتھ اخلاقی تعلیم بھی دی جاتی ہے۔ تاکہ مدرسہ سے فارغ ہونے والے ایک اچھے انسان، ایک اچھے شہری کے فرائض ادا کرسکیں۔
ڈاکٹر حافظؔ کرناٹکی نے اپنے خصوصی خطاب میں کہاکہ؛ اہل مدارس کو پریشان ہونے کی ضرورت نہیں ہے، اس لیے بغیر گھبرائے اور اپنی خود اعتمادی کھوئے حکومت کے افراد و اشخاص کو یہ بات بتادی جائے کہ آپ جس معیار تعلیم کی بات کررہے ہیں وہ تقریباً ہر مدرسے میں دی جاتی ہے۔ مدرسوں میں صرف دینیات کی تعلیم نہیں دی جاتی ہے، اور نہ دینیات کے نام پر فقہ، تفسیر، قرآن، اور حدیث تک تعلیم کو محدود رکھا جاتا ہے۔ بلکہ آج مدارس میں بچوں کو ان ساری چیزوں کے ساتھ ساتھ علاقائی زبانیں، مثلاً کنڑا، ہندی، تلگو، تمل، ملیالم، گجراتی، بنگالی وغیرہ جو بھی زبانیں جن ریاستوں کی ہیں وہ بھی پڑھائی جاتی ہیں۔ اس کے علاوہ انگریزی، ریاضی، جغرافیہ، تاریخ اور بہت حد تک کمپیوٹر کی تعلیم بھی دی جاتی ہے۔یہ بات غلط ہے کہ مدارس کے بچوں کی صلاحیتیں اور لیاقتیں اسکول کے بچوں سے کم ہوتی ہیں۔ ہمارے جتنے اکابرین اور اسلاف اور مجاہدین آزادی اور مفکر و دانشور گذرے ہیں اور اس وقت موجود ہیں سب کے سب مدارس کے فارغین اور تربیت یافتہ تھے اور ہیں۔ سر سید احمد خان اور مولانا ابوالکلام آزاد سے لے کر اے پی جے عبدالکلام تک سبھوں نے مکاتب و مدارس کی فضا میں سانس لی ہے۔
مدرسوں میں سب سے زیادہ توجہ اعلیٰ اخلاق، وسیع النظری، بلند کرداری، خدمت خلق، بھائی چارہ، حب الوطنی، اور ایثار و قربانی کے درس اور تربیت پر دی جاتی ہے۔ کیوں کہ دنیا میں انسانیت کی سربلندی اور خدمت کے یہی بنیادی اوزار ہیں، اسی کی بدولت کوئی ملّت، ملّت کوئی قوم، قوم اور کوئی ملک، ملک بنتا ہے۔ اگر کسی کو یہ غلط فہمی ہے کہ مدرسے کے بچوں کی تعلیمی لیاقت کمزور ہوتی ہے تو انہیں دعوت عام ہے کہ آپ اپنے اسکولوں کے بچوں کا مقابلہ مدارس کے طلبا سے کراکردیکھ لیجئے۔ آپ کو معلوم ہوجائے گا کہ مدارس کی تعلیم کا معیار کتنا بلند ہے۔ ہر تعلیمی ادارے کی طرح مدارس کے طلبا اور اساتذہ کا بھی ایک یونیفارم ہے۔ جس طرح مٹھوں کا مخصوص یونیفارم ہوتا ہے۔ اس لیے مدارس کے تہذیبی، تعلیمی، ماحول اور وضع قطع اور پوشش سے چڑنا یا بدکنا بجزتنگ نظری اور تعصب کے کچھ نہیں ہے۔ بعض لوگ ہندوستان کے مدارس کو دوسرے ممالک کے مدارس اور طلبا سے جوڑ کر بھی دیکھنے کی کوشش کرتے ہیں۔ جو ظاہر ہے کہ ان کے ذہن کا فتور ہے، اس میں کسی قسم کی کوئی سچائی نہیں ہے۔ مدارس کے فارغین میں سے آج درجنوں ایسے طلبا ہیں جو افسر، ڈاکٹر، وکیل، جج، ادیب، شاعر، سماجی کارکن اور سیاسی رہنما بن کر ملک کی خدمت کررہے ہیں۔ اس لیے مدارس کے ذمہ داروں کو نہایت خود اعتمادی کا مظاہرہ کرنا چاہیے۔ اور ہر سوال کا ایسا جواب دینا چاہیے کہ سوال کرنے والا ہی پشیمانی محسوس کرنے لگے۔
اخیر میں مدارس کے ذمہ داروں، اساتذہ، طلبا اور مدارس سے محبت کرنے والے لوگوں سے میں یہ کہنا چاہتا ہوں کہ آپ مدرسہ میں آنیوالے ہر سرکاری، نیم سرکاری، افسروں، اور عوامی رہنماؤں کا پرتپاک استقبال کریں۔ ان کے ساتھ حسن سلوک سے پیش آئیں۔ ان کے ہر سوال کا تسلّی بخش جواب دیں۔ انہیں مدرسے کے تعلیمی نظام، تربیتی احکام اور مدرسے کی تہذیبی فضا سے آگاہ کریں۔ انہیں بتائیں کہ یہ مدارس آزادی سے پہلے کے مراکز ہیں۔ ملّی اثاثے ہیں، قومی اور ملکی خدمت کے گہوارے ہیں۔ یتیموں، غریبوں اور لاوارث بچوں کے لیے علمی، اور تربیتی پناہ گاہیں ہیں۔ یہ بچے ملک کی امانت ہیں۔ جنہیں ضائع ہونے سے مدارس بچارہے ہیں۔ اس طرح مدارس براہ راست ملک کی تعمیر میں حصّہ لے رہے ہیں۔ اور ہاں، آپ لوگ جو اب الجواب قسم کے چکر میں نہ پڑیں۔ پوری خود اعتمادی کے ساتھ اپنے فرائض کی ادائیگی میں لگے رہیں۔
مولانا اظہر الدّین ندوی نے کہا کہ مدارس میں دینی اور عصری دونوں تعلیم دی جاتی ہے۔ لیکن اہم چیز ذہن سازی ہے۔ مدارس میں طلبا کو قوم و ملّت کا محافظ عوام کا خدمت گار اور ملک پر قربان ہوجانے والا سپاہی بنانے کی کوشش کی جاتی ہے۔
جناب رحمت اللہ پٹے گار اسٹیٹ حج کمیٹی ممبرنے کہا کہ؛ آپ لوگوں کو ہر بات کو منفی انداز میں لینے کی ضرورت نہیں ہے۔ آپ حضرات کی خدمات ہی آپ کے لیے پشت پناہ ہے۔
کنڑا صحافتی تنظیم کے ضلعی صدر جناب ہچرایپّا صاحب نے کہا؛ میں دیکھ رہا ہوں کہ آج کل ہر اخبار میں مدارس سے متعلق خبریں آرہی ہیں۔ مگر میں سمجھتا ہوں کہ یہ کوئی گھبرانے کی بات نہیں ہے۔ اگر حکومت کے لوگ تنگ نظری کا مظاہرہ کررہے ہیں تو انہیں سمجھنا چاہیے کہ بڑی مونچھیں رکھنے والا ہر انسان ویرپّن نہیں ہوتا ہے۔ اور نہ کچھ سوامیوں کی غلط کاریوں کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ سارے سوامی غلط ہیں۔ بالکل اسی طرح کسی مولوی صورت انسان کی غلطی کا یہ مطلب نہیں ہوتا ہے کہ ہر مولانا اور مدرسہ خراب ہے۔ اپنی بات چیت جاری رکھتے ہوئے جناب ہچرایپّا صاحب کچھ جوش میں آگئے اور اسی وقت پرمود متالک کو فون لگا کر گویا چیلنج کردیا اور کہا کہ آپ ہی جیسے لوگ مدارس، مسلمان، اور علماء کے بارے میں شکوک و شبہات پیدا کرتے رہتے ہیں۔ میں آپ کو دعوت دیتا ہوں۔ آپ شکاری پور آئیے میں آپ کو مدرسہ مدینۃ العلوم اور گلشن زبیدہ کی سروے کراتا ہوں۔ تب آپ کو معلوم ہوگا کہ ایک آئیڈیل اسلامی تعلیمی انسٹی ٹیوشن کیسا ہوتا ہے۔
حاضرین میں مفتی شاہد ندوی، مولانا عطااللہ صاحب، جناب نذراللہ مڈی، جناب عمران باشاہ،جناب شفیع پہلوان اور گلشن زبیدہ کے طلبا و اساتذہ بھی شامل تھے۔ یہ نشست جناب انجنیر محمد شعیب کے شکریہ کے ساتھ اختتام کو پہونچی۔

مصنف کے بارے میں

GNK Urdu

ایک تبصرہ چھ