جی این کے اردو
12 دسمبر 2022
فخرالدین عارفی : ایک باکمال افسانہ نگار
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
سلمیٰ صنم ، بنگلور
اصل نام محمد فخر الدین قلمی نام فخر الدین عارفی ریاست بہار کے محمدپور ,شاہ گنج ضلع پٹنہ میں پیدا ہوئے۔آپ کے والد کا نام محمد اظہار الحسن ہے ۔ ایم ایے اردو بہار یونیورسٹی مظفرپور اور فاضل فارسی بہار مدرسہ ایجوکیشن بورڈ پٹنہ سے مکمل کیا ۔پھر ڈپلومہ ان ایجوکشن کی ڈگری عربک اینڈ پرشین، پوسٹ گریجویٹ اسٹنڈرڈ انسٹیٹیوٹ پٹنہ سے حاصل کیا اور شعبہ تعلیم حکومت بہار پٹنہ میں ملازمت اختیار کی اور درس و تدریس سے وابستہ رہے ۔قسمت نے ان کے حصے میں مسلسل دکھ ہی لکھا تھا چنانچہ پہلے اکلوتی بہن پھر والدہ اور پھر جب وہ جوانی کی دہلیز پر قدم رکھ رہے تھے تو والد کی شفقت سے محروم ہوگئے۔اپنے اس دکھ پر قابو پانے کی خاطر انہوں نے قلم اٹھایا اور ان کی پہلی تخلیق ماہنامہ ” مسرت” پٹنہ میں اکتوبر 1969 کو شائع ہوئ اور پھر وہ 1970 کے بعد اردو کے افسانوی ادب میں اپنی انفرادی شان و شوکت کے ساتھ خاصے مقبول ہوئے۔
افسانوں کا مجموعہ ” سلگتے خیموں کا شہر ” 1984 ء میں شائع ہوا ۔دوسرا مجموعہ “شہر احساس زیر طبع ہے
قابل ذکر افسانوں کے نام ہیں
سلگتے خیموں کا شہر،لخت لخت ۔ سہارا ۔
منظر بہ منظر ،تاریک راہوں کے ہمسفر ،ایک اور طوفان ،راستے ،
پستک ،شائد، منصوبہ ،منی پلانٹ، کانٹا ، راستہ، رشتہ،خوف زدہ ۔ ہیروشیما کی ماں ۔ انتظار ۔ کاش ۔
ایک نیا تاج محل ،بو ، نیا اندھیرا
پیار ایک خوشبو ، شہر احساس وغیرہ ہیں
اس کے علاوہ ایک تنقیدی مضامین کا مجموعہ ” تعمیر و تشکیل ” اور بہار اسکول پر ایک مکمل کتاب ” دبستان عظیم آباد : تعارف اور خدمات زیر طبع ہے
ان کی ادبی خدمات کے اعتراف میں انہیں کئ ایوارڈز بھی مل چکے ہیں ۔ چند قابل ذکر ایوارڈز میں ” کلیم اللہ کلیم دوست پوری زبان و ادب ایوارڈ ” جسٹس اکبر رضا جمشید ایوارڈ ۔ “
بہار اردو اکادمی پٹنہ کا “سلگتے خیموں کا شہر”(1986) پر خصوصی ایوارڈ پھر بہار اردو اکادمی سے ہی مجموعئ ادبی و صحافتی خدمات کے لیےء بہار اردو اکادمی کا “
لائف ٹائم اچیومنٹ ایوارڈ 07 ۔2006 “
ڈاکٹر منظرکاظمی ایوارڈ ،اردو قبیلہ جمشید پور(جھارکھنڈ )،
ڈاکٹر عبد المغنی ایوارڈ ،بزم فروغ ادب پٹنہ 2003
ٹیچرز ایوارڈ بہار لوک جیون، پٹنہ 2007 یوم اساتذہ کے موقعے پر ۔ تعلیمی شعبے میں نمایاں کارکردگی کے لیےء ۔
ساہتیہ اور سماج سیوا سمان، شاد عظیم آبادی اسٹڈی سرکل، اردو مرکز پٹنہ کا خصوصی ایوارڈ وغیرہ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
افسانہ نگاری کے علاوہ تنقید نگاری اور صحافت بھی ان کے مشاغل میں شامل ہیں ۔وہ ماہنامہ “مریخ” پٹنہ کے 1983 سے 2005 تک مدیر بھی رہ چکے ہیں۔اس کے علاوہ وہ قومی و ریاستی سمینار و مشاعرے کی نظامت کے فرائض بھی 1970 تا حال انجام دے رہے ہیں مختلف علمی ادبی اداروں سے بھی ان کی وابستگی ہے جیسے
سکریٹری، جنرل سکریٹری و نائب صدر انجمن ترقی اردو بہار( از 1980 تا 2005)
جنرل سکریٹری حلقہ ادب، بہار (از 1970 تاحال )
جنرل سکریٹری انجمن فروغ اردو بہار پٹنہ
صدر بزم فروغ ادب پٹنہ
سابق رکن مجلس عاملہ بہار اردو اکادمی پٹنہ ۔
سابق رکن مجلس عاملہ اردو مشاورتی کمیٹی ،حکومت بہار
ان کے علاوہ وہ بہار ودیالیہ سیوا بورڈ پٹنہ کے ایکسپرٹ ممبر ، اور دور درشن کیندر پٹنہ کے بھی لنگویج اکسپرٹ رہ چکے ہیں اور اپنی نگرانی میں نیوز ریڈرز کا پینل بنانے میں اپنا گراں قدر تعاون دے چکے ہیں ۔ این سی آر ٹی اور اس ۔ سی ۔ ای آر ۔ ٹی میں بھی بحیثیت اکسپرٹ نصابی کتابوں کی ترتیب و تہذیب کے فرائض انجام دے چکے ہیں ۔ حکومت بہار کے سرکاری اسکولوں کی 1X اور X کی اردو کتاب “درخشاں ” اور “روشنی ” کے ایڈوٹوریل بورڈ میں آپ کا نام شامل ہے ۔
معروف فکشن نگار نور الحسنین ان کے افسانوں کے بارے میں لکھتے ہیں ” نئ نسل کے افسانہ نگاروں میں فخر الدین عارفی ایک ایسے افسانہ نگار کا نام ہے جس نے بیک وقت علامتی، تمثیلی افسانے بھی لکھے اور حقیقت پسندانہ اسلوب کو بھی برتا۔اس طرح انہوں نے دانشوروں کو بھی متوجہ کیا اور عام قاری سے بھی اپنا رشتہ قائم رکھا۔ان کے افسانوں میں شہلا ، شہناز ، جاوید اشرف، یاسمین جیسے جیتے جاگتے کردار بھی ہیں تو وہیں خارج سے باطن میں جھانکنے والا نئ نسل کا پسندیدہ کردار ” میں ” بھی دکھائی دیتا ہے۔
ڈاکٹر قاسم خورشید یوں رقمطراز ہیں” فخر الدین عارفی نئ نسل کے ایسے افسانہ نگار ثابت ہوئے ہیں جن کے یہاں شہر کا واضح تصور ملتا ہے۔ان کے افسانوں کا خاص موضوع” شہر” ہے جس کو انہوں نے بہت دیانت داری کے ساتھ قاری کے سامنے اپنے بیشتر افسانوں میں پیش کرنے کی بھرپور اور کامیاب کوشش کی ہے۔اس کے ساتھ ہی انہیں دوسرے اہم موضوعات پر بھی دسترس حاصل ہے اور جدید افسانوی ادب میں وہ اپنی ان خوبیوں کی بنیاد پر ہمیشہ یاد رکھے جائیں گے “
اردو کے ممتاز ناقدین اور ادبا و شعرا میں ریس امروہوی ۔ بشیر بدر ۔ ڈاکٹر عنوان چشتی ۔ ڈاکٹر قدوس جاوید ۔ پروفیسر علیم اللہ حالی ۔ پروفیسر عبدالمغنی ۔ پروفسر اعجاز علی ارشد ۔ شین مظفر پوری ۔ شفیع مشہدی ۔ پروفیسر وہاب اشرفی ۔ شفیع جاوید ۔ احمد یوسف ۔ محمود واجد ۔ کلام حیدری ۔ ڈاکٹر قیام نیّر ۔ صبا اکرام ۔ نظام صدیقی ۔ سلطان اختر ۔ پروفیسر عبدالمنان طرزی عبدالصمد ۔ احمد صغیر ۔ ڈاکٹر شفیع الزماں معظم اور ڈاکٹر زرنگار یاسمین نیز اختر واصف ۔ رحمان شاہی ۔ قیصر رضا اور رفیع حیدر انجم ۔ نسیم احمد نسیم وغیرہ جیسے لوگ فخرالدین عارفی کی افسانہ نگاری پر خامہ فرسائ کرچکے ہیں ۔ پروفیسر عبدالمغنی اپنے ایک مضمون ” فخرالدین عارفی میری نظر میں ” ان کی افسانہ نگاری کے تعلق سے یوں رقم طراز ہیں :
“فخرالدین عارفی ایک جدید افسانہ نگار ہیں اور بالعموم فلسفیانہ قسم کے ایسے افسانے لکھتے ہیں جن میں وہ ماجرا سازی اور کردار نگاری سے زیادہ زور انشا پردازی اور اظہار احساسات پر دیتے ہیں ۔ اس سلسلے میں ایک خوبی ان کے افسانوں میں عام طور پر پایء جاتی ہے اور وہ یہ کہ آج کے بہتیرے افسانہ نگاروں کے برخلاف فخرالدین عارفی صحیح ۔ صاف اور خوب صورت زبان لکھتے ہیں اور اگر ان کے شعور کی رو پڑھنے والے کی گرفت میں آجاتی ہے تو وہ واضح طور پر ان کی بات سمجھ جاتا ہے ۔ “
افسانوی مجموعہ ” سلگتے خیموں کا شہر “
ڈاکٹر بشیر بدر فخرالدین عارفی کی کتاب پر تبصرہ کرتے ہوےء رسالہ ” آجکل ” نیء دہلی میں تحریر کرتے ہیں کہ :
“فخرالدین عارفی بہت خوب صورت زبان لکھتے ہیں ۔ ان کی خوب صورت زبان ان کے کسی بھی افسانے کو قاری پڑھنے کے لیےء خود کو مجبور محسوس کرتا ہے ۔ اس سلسلے میں ان کی کہانی ” دیوار ” کی مثال دی جاسکتی ہے ۔ محبت کی ایک سیدھی سادی کہانی کو فخرالدین عارفی نے اس طرح سے برتا ہے کہ اردو کی رومانی کہانیوں میں یہ کہانی ہمیشہ یاد رکھی جاےء گی ۔ ” ( ماہنامہ آج کل نیء دہلی ۔ میء 1986 ء صفحہ نمبر 45 )
فخرالدین عارفی افسانہ نگاری کے ساتھ ساتھ صحافت سے بھی وابستہ رہے ہیں اور تقریباّ پچیس برسوں تک وہ ایک انتہایء مقبول اور معیاری رسالہ ماہنامہ ” مریخ ” کے معاون مدیر رہ کر رسالے کی ترتیب و تہذیب کے فرائض انجام دیتے رہے ہیں ۔ فخرالدین عارفی اردو کے تقریباّ تمام معیاری رسالوں میں شائع ہوتے رہے ہیں ۔ مثلاّ “آج کل ” نیء دہلی ۔ ” شب خون ” الہّ آباد ” “تحریک ” نیء دہلی ۔ “نشانات ” مالیگاوں ” ناسک ۔ “آواز ” نیء دہلی ۔ “نیا دور ” لکھنوء ۔ “بیسویں صدی ” نیء دہلی ۔ “صریر ” کراچی پاکستان ۔ ” سیّارہ ” پاکستان ۔ “منشور ” پاکستان ۔ “صبح نو ” پٹنہ ۔ ” مریخ ” پٹنہ ۔ “زیور ” پٹنہ ۔ “واقعات ” نیء دہلی ۔ “کوہسار ” ۔ “وائس آف بہار ” ۔ “ایوان اردو ” نیء دہلی ۔ “سب رنگ ” ممبیء ۔ ” مسرت ” پٹنہ ۔ ” پیام تعلیم ” نیء دہلی ۔ “آہنگ” گیا ۔ ” زبان و ادب ” پٹنہ ۔ “پالیکا سماچار ” نیء دہلی ۔ ” دہلی ” وغیرہ ۔۔۔۔۔۔۔
پیشکش :
سلمیٰ صنم ، بنگلور