جی این کے اردو
6 جون / 2022
غالب انسٹیٹیوٹ کی جانب سے جاوید دانش کی کتاب ’ہجرت کے تماشے‘ کی رسم اجرا و مذاکرہ
غالب انسٹی ٹیوٹ کی جانب سے اردو کے ممتاز ڈرامہ نگار اور تھیٹر آرٹسٹ جناب جاوید دانش کی کتاب ’ہجرت کے تماشے‘کی رسم رونمائی اور مذاکرے کا انعقاد کیا گےا۔ اس جلسے کے صدارت غالب انسٹی ٹیوٹ کے سکریٹری پروفیسر صدیق الرحمٰن قدوائی نے کی۔ اپنے صدارتی خطاب میں انھوں نے کہا کہ مجھے خوشی ہے کہ غالب انسٹی ٹیوٹ نے ہمارے عہد کے ایک ممتاز ڈرامہ نگار اور تھیٹر کی دنیا میں منفرد شناخت رکھنے والے ادیب و فنکار جناب جاوید دانش کی کتاب پر مذاکرے کا اہتمام کیا۔ جاوید دانش کی کامیابی کا راز اس بات میںبھی پوشیدہ ہے کہ وہ اردو ڈرامے کی روایت سے جس طرح واقف ہیںاسی طرح دوسری زبانوں کے ڈرامائی ادب پر بھی گہری نظر رکھتے ہیں۔ خدا نے انھیں تخلیقی صلاحیت عطا کی ہے جس میں ان کے تجربات اور مطالعے نے چار چاند لگا دیے ہیں۔ غالب انسٹی ٹیوٹ کے ڈائرکٹر ڈاکٹر ادریس احمد نے کہا کہ جاوید دانش صاحب نے ایسے خانوادے ،میں آنکھ کھولی جہاں پہلے سے علم و ادب کا چرچا تھا ۔ ان کے والد خود مصنف تھے جنھوں نے انھیںلکھنے پڑھنے کی طرف راغب کیا۔ جاوید دانش کے شوق سفر نے انھیں کنیڈا میں بسا دیا ۔ وہ ملک سے دور تو ہوئے لیکن اس سر زمیں نے ان کے قلم کو ایسی آزادی دی کہ شاید وہ کہیں اور میسر نہیں ہوسکتی تھی۔میں ان کی کتاب ’ہجرت کے تماشے‘ کی اشاعت پر مبارکباد پیش کرتا ہوں۔ جناب جاوید دانش نے کہا کہ میں غالب انسٹی ٹیوٹ اور تمام شرکا ، خصوصاً پروفیسر محمد کاظم اور ڈاکٹر جاوید حسن کا شکر گزار ہوں کہ آپ نے میری کتاب کے سلسلے میں ایسی بزم آراستہ کی اور اس پر گفتگو کے لیے آمادگی طاہر کی۔ اردو میری مادری زبان ہے اور مجھے ہمیشہ یہ فکر رہتی ہے جس زبان نے مجھے ساری دنیا میں شناخت دی ہے اپنے امکان بھر اس میں کچھ ایساکر سکوں جس میں تازگی ہو۔ میرے خیال میں ادب میں اضافہ اسی کو مانا جاتا ہے جس میں روایت کی آگہی بھی ہو اور نئی دریافت بھی ہو۔ میں نے اس دنیا میں رہتے ہوئے اسے جیسا محسوس کیا اسے اپنی تخلیق میں پیش کرنے کی کوشش کی ہے۔ پروفیسر محمد کاظم نے کہا کہ جاوید دانش سے میری پرانی رفاقت ہے میں نے ان میں اپنے کا کے تئیں ایسی سپردگی دیکھی کہ اس کو بطور مثال پیش کیا جا سکتا ہے۔ ان کے لیے لکھنا ایک روحانی غذا ہے جس کے بغیر وہ رہ نہیں سکتے۔ وہ اپنی گفتگو میں کم اور تحریر میں زیادہ واضح ہوتے ہیں۔ اس کتاب کی خصوصیت یہ ہے کہ اس میں جو ڈرامے ہیں ان میں ایک نئی دنیا سے ہمارا تعارف ہوتا ہے۔ یعنی وہ ایسے موضوعات نہیں جن پر ہر کس و ناکس قلم اٹھاسکے۔ ڈاکٹر جاوید حسن نے اپنے تاثرات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ہر زبان کی یہ خصوصیت ہے کہ اس میں کچھ اصناف زیادہ ترقی کرتی ہیں اور ان کی بہ نسبت دیگر اصناف کو ترقی کا کم موقع ملتا ہے۔ اردو کا مزاج ہے کہ اس میں شاعری خصوصاً غزل نے زیادہ مقبولیت حاصل کی ۔ ہمیں جاوید دانش جیسے فنکاروں کی اس لیے بھی قدر کرنی چاہیے کہ ان جیسے فنکار وں کی وجہ سے اردو ڈرامہ اس لائق ہے کہ ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ دنیا کے جدید مثائل کی پیشکش میں اردو کسی سے کم نہیں ہے۔ جاوید دانش جتنا فن سے واقف ہیں موجودہ دنیا کے مسائل سے بھی اسی طرح آگاہ ہیں۔ مسائل سے آگہی، ان کو تخلیقی تجربہ بنانا اور فنی تقاضوںکی تکمیل کا بہترین امتزاج دیکھنا ہو تو ’ہجرت کے تماشے‘ کا مطالعہ کرنا چاہیے۔ میں اس کتاب کے مصنف اور غالب انسٹی ٹیوٹ کو مبارکباد پیش کرتاہوں۔ اس جلسے میں علم ادب سے تعلق رکھنے والی اہم شخصیات نے بڑی تعداد میں شرکت کی۔