ادبی خبریں

ایک روزہ سیمینار بعنوان ُنورالحسنین : فن اور شخصیت‘ بمقام ناندیڑ

رپورتاژ : خواجہ کوثر حیات۔اورنگ آباد (دکن) بھارت

ترتیب و تزئین : سیداطہراحمد۔اورنگ آباد

ادب کے شہہ پارے جس طرح قیمتی اثاثہ ہوتے ہیں اسی طرح ادب کو تخلیق کرنے والی ادبی شخصیات ادبا و شعرا بھی ایسی میراث ہے جنہیں نئی نسل سے متعارف کروانا زبان کی بقاء اور ان کااعتراف خدمات لازمی اور باعث فخر ہے۔ بقول جناب ارتکاز افضل صاحب ”اورنگ آباد (دکن) ایک نئی تاریخ مرتب کررہا ہے۔“ادبی فورم وارثان حرف و قلم مسلسل دو سال سے جشن نورالحسنین کے تحت مختلف ادبی سرگرمیاں نہایت تزک و احتشام سے منائی جارہی ہیں جو وسیع ہوکر دیگر اضلاع میں بھی پہنچ گیا۔اسی سلسلہ کی آخری کڑی کے طور پر معروف روزنامہ ورق تازہ اور مدینہ العلوم اسکول کے اشتراک سے صاحب جشن نورالحسنین صاحب کے فن و شخصیت پر ایک سیمینار بعنوان ’نورالحسنین: فن اور شخصیت‘ مدینتہ العلوم جونیئر کالج، ناندیڑمنعقد کیا گیا۔

اس سیمینار میں شرکت کے لئے اورنگ آباد سے وارثان حرف و قلم کا 11رکنی کا قافلہ ناندیڑ پہنچا اردو گھرناندیڑکی انتظامی کمیٹی کی جانب سے والہانہ استقبال کیا گیا۔ اس قافلہ میں نورالحسنین، خالد سیف الدین، ابوبکر رھبر،ڈاکٹر سلیم محی الدین، سالک حسن خان، اختر لالہ، سید کامل، سید اطہر احمد، خواجہ کوثر حیات، ڈاکٹر رفیع الدین ناصر، پروفیسر عبدالقادر، مختار الدین قادری شامل تھے۔ اس کے علاوہ پربھنی سے ڈاکٹر نورالامین صاحب، جناب خضر احمد خان شرر، جناب منور خان اور جلگاؤں سے ڈاکٹر شجاع کامل صاحب نے بطور خاص شرکت فرمائی۔

اردو گھر ناندیڑ میں جشنِ نورالحسنین کمیٹی کے ممبران نے اردو گھرناندیڑکی انتظامی کمیٹی کے ساتھ تبادلہ خیال کیا۔ انجینئر خالد سیف الدین نے اردو گھر ناندیڑ کی اس عالی شان عمارت کو کس طرح استعمال کیا جائے نیز سماجی، ثقافتی اور تعلیمی سرگرمیاں کس طرح تیز کی جائے اس طرح کے زرین مشورے بھی دیئے گئے۔ اس خصوصی میٹنگ میں ناندیڑ اردو گھر انتظامی کمیٹی کے ذمہ داران میں جناب محمد تقی(ایڈیٹر ورق تازہ)، پروفیسر شبانہ درانی (شعبہ اردو یشونت کالج)،محترمہ تسنیم بیگم (کو آردینیٹراردو اسڈی سرکل)، لکچرر ذکی قریشی (مدینتہ العلوم جونیر کالج) اور لکچرر حبیب مسعود موجود تھے۔

سیمینار ایڈوکیٹ محمد بہاو الدین صاحب (معتمد مجلس انتظامی مدرسہ مدینۃ العلوم ناندیڑ)کی صدارت عمل میں آیا۔بطور مہمانان خصوصی پرنسپل ڈاکٹر سید شجاع علی (شجاع کامل)، پروفیسر و صدر شعبہ اردو ڈاکٹر سلیم محی الدین صاحب، انجینئر خالد سیف الدین صاحب، جناب ابوبکر رھبر، محترمہ خواجہ کوثر حیات، اسوسیٹ پروفیسر ڈاکٹر نورالامین، ڈاکٹر ارشاد احمد خان صاحب موجود تھے۔

پروگرام کاآغاز حافظ زبیر کی تلاوت قرآن سے ہوا۔بعداز تلاوت قرآن مدرسہ مدینۃ العلوم و ورق تازہ کی جانب سے تمام ذمہ داران، مہمانان اور جشن نورالحسنین کمیٹی کے ممبران کی گلپوشی شہر کی مختلف اہم شخصیات کے ذریعہ کی گئی۔
افتتاحی کلمات اور تمام مہمانوں اور مقالہ نگاران کا تعارف جناب مسعود اختر نے پیش کیا۔خطبہ استقبالیہ جناب شفیع احمد قریشی صاحب نے ادا کیا۔اپنے خطبہ میں جناب شفیع احمد قریشی صاحب نے یہ تیقن دیا کہ وارثان حرف وقلم کی یہ ادبی تحریک بذریعہ تقی صاحب (ورق تازہ) اور مسعود اختر صاحب ناندیڑتک پہنچی اور آئندہ مدرسہ مدینۃ العلوم ناندیڑ میں ہر سال دو ادبی پروگرام منعقد کریں گے تاکہ نئی نسل ادب کے رو برو آئے۔

سیمینار کا آغاز ڈاکٹر حمید خان کے مقالے سے ہوا جسے مسعود اختر صاحب نے بہترین نشست و برخواست کی ادائیگی کے ساتھ سامعین کے گوش گزار کیا۔ ڈاکٹر حمید خان صاحب نے اپنے مقالے میں نورالحسنین کے لکھے مقبول ناول ’چاند ہم سے باتیں کرتا‘ کے فنی و تکنیکی پہلوؤں پرتفصیل سے روشنی ڈالی۔ ساتھ ہی مقالہ میں اس بات کا بھی اعتراف کیا کہ اورنگ آباد دکن میں تخلیق کاروں کی قابل قدر تعداد موجود ہے۔اور اردو نواز طبقہ سے گزارش بھی کی کہ اردو سے بے التفائی اردو کے لئے مضر ثابت ہوگی۔

ڈاکٹر سلیم محی الدین صاحب نے اپنے مقالے ’کتاب چہرہ فنکار‘ میں نورالحسنین کے فن اور شخصیت کا منفرد اور دلچسپ انداز میں احاطہ کیا۔ انھوں نے نورالحسنین کو مراٹھواڑہ میں فکشن کی نئی روایت کا بنیاد گزار قرار دیا۔ سلیم محی الدین نے نورالحسنین کی تنقید کو تخلیقی تنقید کی عمدہ مثال سے تعبیر کیا۔

جناب خالد سیف الدین صاحب نے جشن نورالحسنین کے انعقاد کے مقصد پر سیر حاصل بات کی۔جناب نورالحسنین صاحب کی ادبی خدمات کا اعتراف کرتے ہوئے ان ادبی خدمات کو اور نئی نسل میں ادب کے تئیں دلچسپی پیدا کرنے کے لیے وارثان حرف و قلم کی جانب سے کی جانے والی ایک منفرد کاوش جس نے اب تک تقریباً 127/ ادبی نشستیں منعقد کیں اور ان کے انعقاد کی خصوصیت یہ رہی کہ اس میں تمام مقامی ادبی انجمنوں کو شامل کیا گیا اس کاتفصیلی ذکر کیا اور آپ نے نورالحسنین کے ساتھ تقریباً ایک ہزار ریڈیائی ڈراموں میں بطور صداکار بھی کام کیا۔ اسی تناظر میں نورالحسنین اور ان کے ڈراموں کے فنی محاکات کو بھی پیش کیا۔

جناب جلیل احمد صاحب نے نہایت پرجوش انداز میں نورالحسنین کی جماعت نہم کے نصاب میں شامل افسانہ ’19/مارچ 2150ء‘ کی روشنی میں نورالحسنین صاحب کی دور اندیشی اور سوچ کے وسیع دائرے کی ستائش کی۔

محترمہ خواجہ کوثر حیات نے جناب نورالحسنین صاحب کی طبع آزمائی کی گئی تمام اصناف کا ذکر کرتے ہوئے ان کی افسانہ نگاری اور ناول نگاری کے فنی پہلوؤں کو اجاگر کرتے ہوئے ان کے طرز اسلوب اور تحریر کی زبان اور اس میں استعمال کئے گئے لب و لہجہ پر تفصیلی روشنی ڈالی ساتھ ہی ان کی کتابوں کے وہ اقتباسات پیش کئے جس سے انکی علمی بصیرت اور فکر انگیزی اور عملی زندگی کی صعوبتوں کا ذکر ہے۔

ڈاکٹر ارشاد صاحب نے اپنے مقالے میں نورالحسنین کے افسانوں کے اقتباسات کی روشنی میں ان کے فن کو پیش کیا ساتھ ہی نورالحسنین کی تحریروں پر لکھے ناقدین کے اقتباسات تفصیل سے پیش کیا۔

ڈاکٹر نورالامین صاحب نے نہایت پروقار انداز میں کہا کہ ہمیں فخر ہے اس بات کہ یہ آنکھیں گواہ ہیں کہ نورالحسنین کو ہم نے دیکھا ہے۔فخر اس بات پر ہے کہ مراٹھواڑہ کے افسانہ نگار ہیں جس طرح سلیم محی الدین نے شاعری میں شناخت قائم رکھی اسی طرح شاعری کے لیے جانا جانے والا مراٹھواڑ ہ نورالحسنین کی وجہ سے نثر میں بھی نمائندگی کررہا ہے۔اور یہ خواہش ظاہر کی کہ نورالحسنین کی ادبی خدمات کے اعتراف میں انہیں پدم شری جیسے ایوارڈ سے نوازا جاناچاہئے۔

ڈاکٹر شجاع علی (شجاع کامل)صاحب نے اپنے مقالے میں نورالحسنین کی فن اور شخصیت پر بات کرتے ہوئے کہا کہ چاند نورالحسنین کے ادبی سفر کا ہر وقت گواہ رہا ہے۔

نورالحسنین صاحب کو سُنا جانا جشن کو دو آتشہ کرتا ہے۔ صاحب جشن نورالحسنین نے جشن کی شروعات کا تذکرہ کچھ اس طرح کیا کہ”اچانک ایک دن میرا دوست خالد آیا اور کہنے لگا کہ تمہارا جشن منانا ہے۔ اور میں اس کا چہرہ دیکھتا رہ گیا لیکن جب خالد سیف الدین نے جشن کا مقصد بتایا کہ مجھے نئی نسل تک نورالحسنین کی ادبی خدمات پہنچانے اور انہیں ادب سے جوڑنے کا کام کرنا ہے یہ سن کر مجھے بہت خوشی ہوئی۔
آج مجھ پر مقالے کے ذریعہ میرے فن اور شخصیت پران کی خوبیوں پر بہت زیادہ بات ہوئی ویسے تو مجھے اپنی تعریف سننا یا کروانا قطعی پسند نہیں لیکن جب بھی کوئی تعریف کرے تو میں اچھے قلم کاروں کو پڑھتا ہوں، اپنا مطالعہ بڑھادیتا ہوں کہ مجھ سے بھی بہتر لکھنے والے جن کو پڑھ کر میں اپنا مطالعہ اور مشاہدہ دونوں وسیع کروں۔اللہ تعالی کاشکر ہے کہ انعام و اعزاز ہم عصر لوگوں سے مل رہا ہے یہ میرے لئے اللہ کی طرف سے دی گئی عزت ہے۔
عموماً افسانہ نگار اپنے اسلوب میں دیہات کا پس منظر و لب لہجہ منشی پریم چند کے افسانوں کا استعمال کرتے ہیں مگر جب میں نے افسانے لکھے تو مراٹھواڑہ کے دیہاتوں کی زبان کو لکھا،ان کی بولی اور ان کی استعمال کی جانے والی اصطلاحات کو لکھا۔جس پر محمد حسن صاحب اور نارنگ صاحب نے کہا کہ پہلی مرتبہ ہم نے ان افسانوں کے ذریعے مراٹھواڑہ کے دیہاتوں کو دیکھا اور جانا۔نئے لکھنے والے لکھے کم اور پڑھے زیادہ یعنی اپنا مطالعہ وسیع کریں،اپنا مشاہدہ وسیع کریں۔
اس بارے میں جاوید ناصر کیا خوب کہا تھا کہ ’’پہاڑ کو عجلت میں سر نہیں کرتے۔‘‘ اپنی ادبی شروعا ت میں جب میں نے جوگیندر پال سے پوچھا کہ میں کس طرح کا اسلوب لکھوں تو جوگیندر پال نے کہا ”بے شک جتنے لوگ دنیا میں ہے اتنے اسلوب ہے۔کہانی اپنا حجم، کردار لے کر آتی ہے۔“نئے لکھنے والوں سے میں یہی کہوں گا کہانی جب لکھی جائے یا جس شہر کا ذکر ہو وہاں کا پورا عکس ہوناچاہئے۔میں اس بات کا شکر ادا کرتا ہوں کہ اللہ تعالی نے مجھے قلم دیا تو میرے قلم کو عزت بھی د ی۔“
اس پروگرام میں جتنے بھی مقالے پڑھے گئے ان میں نورالحسنین کے فن، اسلوب، تکنیک اور شخصیت پر روشنی ڈالی گئی۔ ہر مقالہ ایک دوسرے سے مختلف تھا اور ایک سے بڑھ کر ایک تھا۔

ورق تازہ کے مدیر اعلی جناب محمد تقی نے اپنی تقریر میں کہا کہ وارثان حرف و قلم اورنگ آباد ایک ایسا اردو بزم ہے جس نے اردو ادب کی شخصیت پر اس کی زندگی میں ہی اس کے نام سے جشن منعقد کیا اور جشن بھی ایسا جو مسلسل دو سال سے جاری ہے۔ اس منفرد کام پر میں وارثان حرف و قلم کو مبارکباد دیتا ہوں۔ اور میں وارثان حرف و قلم کے روح رواں جناب خالد سیف الدین صاحب اور ا ن کے رفقاء کے کام کو آغاز سے ہی دیکھ رہا ہوں جو ایک قابل تعریف کارنامہ ہے۔ اور اس طرح کے بے لوث افراد کی ہمیں ضرورت ہے۔“

صدارتی خطبہ میں صدر ایڈوکیٹ محمد بہاؤ الدین صاحب نے اپنے خطاب میں کہا کہ وارثان حرف و قلم دو سال سے جناب نورالحسنین کی ادبی خدمات پر نشستوں کا اہتمام کررہا ہے تو دکن کی نمائندگی کرنے والی اس عظیم ہستی کے لئے شہر ناندیڑ میں بھی استقبالیہ اور اعتراف خدمات کے ضمن میں مدرسہ مدینۃ العلوم اورروزنامہ ورق تازہ کے اشتراک سے سیمینار اور مشاعرے کا انعقاد کرکے شہریان اور محبان اردو کو اس علم دوست ہستی سے بالمشافہ ملانے کا اور انہیں سننے کا نظم کیا گیا ۔

ابوبکر رہبر نےجشن نورالحسنین کے سلسلے میں پچھلے دو سالوں میں منعقد کردہ پروگراموں کی تفصیلات پیش کیں۔ ا س موقع پر اردو روزنامہ ’ورق تازہ‘ ناندیڑ کی جانب سے جناب نورالحسنین صاحب پر خصوصی شمارہ ’گوشہ نورالحسنین‘ کا اجراء عمل میں آیا جس میں نورالحسنین صاحب کے فن اور شخصیت پر اہل علم وادب نواز شخصیات کے لکھے مضامین اور نظمیں شامل تھیں۔ اسی کے ساتھ جناب نورالحسنین پر لکھی گئی کتاب ’من شاہ جانم‘کی رونمائی عمل میں آئی۔

فروغ اردو فورم ناندیڑ کی جانب سے نورالحسنین کی گلپوشی کی گئی اور فورم کے نائب معتمد جناب شیخ علیم اسرار کی لکھی توصیفی نظم بطور تہنیت پیش کی گئی۔اس موقع پر فورم کے صدر پروفیسر ڈاکٹر ارشاد احمد خان صاحب، جنرل سیکریٹری ڈاکٹر محمد عبدالرافع صاحب، رکن ڈاکٹر نورالامین صاحب، محترم محمد تقی صاحب اور عبدالملک نظامی حاضر تھے۔

پروگرام کا اختتام مدرسہ مدینۃ العلوم کے صدر مدرس جناب سید جاوید علی کے شکریہ پر عمل میں آیا۔ اس سیمینار میں اہل قلم، دانشوران ومعزز شہریان کی کثیر تعداد موجود تھی جو اس بات کی غماز تھی کہ اردو ادب کے شیدائیوں کی کمی نہیں ہے اور یہ اردو سے محبت کا ثبوت ہے۔ اس طرح کی شاندار محفل منعقد کرنے پر تمام نے مدرسہ مدنیۃ العلوم او رورق تازہ کے ذمہ داران کو مبارکباد دی۔

نظامت کے فرائض جناب مسعود اختر نے بہترین انداز میں انجام دیے۔اس موقع پر جشنِ نورالحسنین کمیٹی کے ذمہ داران میں سے ڈاکٹر رفیع الدین ناصر،جناب سالک حسن خان، جناب اختر خان، سید کامل، سید مختار الدین قادری اور سید اطہر احمدموجود تھے۔

بشکریہ ڈیلی حالاتْ نیوز بھیونڈی
بشکریہ اردو روزنامہ الہلال ٹائمز بیڑ مہاراشٹر

مصنف کے بارے میں

کوثر حیات

ایک تبصرہ چھ