قلم کار سے ملاقات

ڈاکٹر فرقان عالم سنبھلی کے ساتھ ڈاکٹر غلام نبی کمار کی ایک خاص ملاقات

شیخ العالم ایجوکیشنل اینڈ ویلفیئر سوسائٹی کے زیر اہتمام “قلم کار سے ملاقات” میں ہمارےمہمان ہیں ڈاکٹر فرقان سنبھلی صاحب
ڈاکٹر فرقان سنبھلی کا پورا نام محمد فرقان سنبھلی ہے۔ آپ پہلے انجینئر محمد فرقان سنبھلی کے نام سے لکھتے تھے، لیکن بعد میں آپ نے اردو میں پی ایچ ڈی کر لی، اس طرح پھر آپ ڈاکٹر فرقان سنبھلی کے نام سے لکھنے لگے۔ فرقان سنبھلی کا آبائی وطن سنھبل ہے۔ فی الوقت درس و تدریس کا فریضہ انجام دے رہے ہیں۔ آپ شعبہ اردو، وومینز کالج علی گڑھ مسلم یونی ورسٹی، علی گڑھ میں بہ حیثیت اسسٹنٹ پروفیسر خدمات انجام دے رہے ہیں۔ ڈاکٹر فرقان سنبھلی اردو کے میدان میں آنے سے قبل سول انجینئر کے پیشے سے وابستہ تھے، لیکن اپنی ذاتی دلچسپی اور اردو زبان سے لگاؤ کے سبب موصوف نے اردو میں اعلیٰ تعلیم حاصل کی۔ انھوں نے آگرہ سے ایم اے اردو کرنے کے بعد مسلم یونی ورسٹی علی گڑھ سے اردو ہی میں پی ایچ ڈی اردو کیا۔ ڈاکٹر فرقان سنبھلی کے حوالے سے یہ کہتے خوشی ہو رہی ہے کہ آپ موجودہ نسل کے لکھنے والوں میں بہت متحرک اور فعال اسکالر کے طور پر اپنی شناخت قائم کر چکے ہیں۔ انھوں نے پچھلے کئی برسوں سے اپنے لکھنے پڑھنے کی رفتا میں کمی نہیں آنے دی بلکہ اسے مزید استحکام بخشا۔ آپ کی علمی و ادبی، تحقیقی و تنقیدی، تخلیقی و صحافتی سرگرمی کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ آپ نے بہت قلیل عرصے میں اردو زبان و ادب میں بارہ کتابیں تصنیف کیں۔ فرقان سنبھلی نے ترجمہ نگاری اور صحافت نگاری میں بھی خصوصی دلچسپی کا مظاہرہ کیا۔ انھوں صحافت اور اداریہ نویسی کے موضوع پر دو کتابیں لکھیں۔ آپ کی شائع شدہ کتابوں میں مصر قدیم، آئنہء فلکیات، اردو صحافت اور ضلع مراد آباد، آب حیات(افسانوں کا مجموعہ)، نقوش قلم(مضامین کا مجموعہ)، ترک اور سنبھل سرکار، طلسم (افسانوں کا مجموعہ) ، روہیل کھنڈ میں لوک گیتوں کی روایت، سفرنامہ ناروے: سورج چاندنی رات میں (ترجمہ)، صحافت، انٹرنیٹ اور اداریہ نویسی، روہیل کھنڈ کے اردو لوک گیت وغیرہ قابل ذکر ہیں۔ ان کے اب تک افسانوں کے دو مجموعے اور مضامین کا ایک مجموعہ منظر عام پر آچکا ہے۔
ڈاکٹر فرقان سنبھلی نے افسانہ نگاری میں بھی اپنی تخلیقی فن کاری کا اعلیٰ ثبوت دیا ہے۔ انھوں نے افسانوں میں سماج کے اچھوتے مسائل کو اپنا موضوع بنایا ہے۔ ان کے افسانوں کو اردو کے معتبر ناقدین نے تنقیدی موضوع بنایا ہے اور ان سے موثر نتائج نکالے ہیں۔ فرقان سنبھلی نے سو کے قریب سیمیناروں میں مقالات پڑھے ہیں اور ڈیڑھ سو سے زائد مضامین لکھے ہیں جن میں ستر سے زائد مضامین ہندوستان کے مقتدر رسائل و جرائد میں شائع ہو چکے ہیں۔ ہمیں امید ہے کہ آپ کو ہماری فرقان سنبھلی کے ساتھ گفتگو پسند آئے گی۔
یہ انٹرویو فرقان سنبھلی سے علی گڑھ کے ابن سینا اکادمی میں کیا گیا تھا۔ اب یہ بات افسوس کے ساتھ کہی جا رہی ہے کہ موصوف عالم شباب میں گذشتہ مہینے اس دنیائے فانی سے رخصت ہوئے۔ الله تعالٰی انھیں غریق رحمت کرے آمین۔

مصنف کے بارے میں

میر زبیر

ایک تبصرہ چھ