وارثان حرف و قلم کے زیر اہتمام جشن نورالحسنین کے تحت محفل غزل کا اہتمام
ترتیب و پیشکش : سیداطہراحمد،اورنگ آباد (دکن) بھارت
غزل اردو شاعری کی مقبول ترین صنف سخن ہے۔ اردو ادب میں غزل کی مقبولیت کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ غزل ہر دور میں اہل اردو کے جذبات و احساسات کا ساتھ نبھانے میں کامیاب رہی ہے۔ غزل پڑھنے میں اچھی لگتی ہے لیکن اسے سننے کا مزہ ہی کچھ اورہوتا ہے۔غزل کی نغمگی اس وقت دوبالا ہو جاتی ہے جب غزل ڈاکٹر دوست محمد خان کی آواز سے مزین ہوتی ہے۔ ادبی فورم وارثان حرف و قلم کے زیر اہتمام جاری سلسلہ جشن نورالحسنین کے تحت بتاریخ 2 دسمبر کو ’ایک شام دوست محمد خان کے نام: محفل غزل‘ مولانا آزاد ریسرچ سینٹر، مجنوں ہل، اورنگ آباد میں انعقاد عمل میں آیا۔
ڈاکٹر دوست محمد خان کی وابستگی پیشہ تدریس سے ہے۔آپ مولانا آزاد بی ایڈ کالج میں نفسیات کے لیکچرررہے۔ آپ نے میوزک میں ایم اے بھی کیا۔ غزل گوئی کا شغف آپ کو بچپن سے رہا۔ آپ نے پہلی غزل 1964ء میں جب سکندر علی وجد صاحب کے ریٹائرڈ ہونے کے موقع پر گائی تھی۔16/سال کی عمر سے ہی انہوں نے غزلیں گانا شروع کردیا تھا۔ مسلسل ریاضت اور دلچسپی نے آپ کا رخ کلاسیکل موسیقی کی جانب کیا اور موسیقی سے تعلق ہونے کی وجہ سے خود اپنا انداز بنایا۔ مختلف راگ سے اپنی دھن آپ خود تیارکرتے ہیں۔
ہندوستان بھر میں آپ کے مداح موجود ہیں۔ لدھیانہ، چندی گڑھ، میرٹھ، متھرا، بھوپال، اندور، گجرات اور جموں و کشمیر و مغربی بنگال میں بھی غزل کے کامیاب پروگرام کئے۔ آپ کی اب تک ایک کتاب غزل گائن پر ہندی میں شائع ہوئی اور دو غزلوں کی سی ڈی ’غزل کاسفر(دکن سے دلی)اور دوسری ’غزل کی واپسی (دلی سے دکن)‘ جس میں میر، غالب، سودا، داغ جیسے نامور استاد شعراء کو گایا اور آپ کا یہ شوق ہنوز جاری ہے۔
شام غزل کاآغازرات 8/بجے جناب اسلم مرزا کی صدارت میں ہوا۔ اس پروگرام میں صاحب جشن نورالحسنین نیز مہمانان خصوصی میں جناب عبدالرشید خان ماموں (سابق میئر)،جناب فیاض قریشی (مدیر اعلی سٹزن ہندی)، جناب ارشاد فیاض قریشی (مدیر سٹزن ہندی)،جناب الیاس کرمانی (صدر مہاراشٹر مسلم عوامی کمیٹی)،جناب ناصر نہدی (صدر عرب لیگ آف انڈیا)،جناب شیخ محمد ایوب(صدر اردو ایجوکیشن سوسائٹی)، جناب منصورمصطفی (صدر الصباء ایجوکیشن سوسائٹی)، جناب مرزا سلیم بیگ (موظف صدر مدرس)،جناب معز ہاشمی، جناب تحسین خان موجود تھے۔
مولانا آزاد ریسرچ سینٹر جناب دوست محمد خان کے مداحوں سے بھرا ہوا تھا۔ اور اسٹیج پر جناب دوست محمد خان صاحب اپنے ساتھی سازندوں کے ساتھ معہ سازوں کے جلوہ افروز تھے۔ محفل غزل میں آپ کاساتھ جن سازندوں نے دیا ان میں گجانند کے چے ہارمونیم نواز (میوزک کے لیکچرر،سرسوتی بھون کالج آف آرٹس، اورنگ آباد)، طبلہ نواز دھننجے جلگاؤنکر،دوسرے طبلہ نواز ڈاکٹر شکیب دوست محمد خان اور بانسری پر 12/سال کے ایک نوعمر فنکار نے محفل کو سجایا۔
محفل غزل کے آغاز میں وارثان حرف و قلم کی جانب سے ڈاکٹر دوست محمد خان اور ان کی ٹیم کاپرجوش استقبال کیا گیا۔ ساتھ ہی مہمانان خصوصی کا استقبال گل پیش کرکے کیا گیا۔
پروگرام کی شروعات دوست محمد خان نے اپنی مترنم آواز کے سحر سے اپنے پسندیدہ شاعر بشیر بدر کی غزل سے کی اور ماحول کو پرکیف بنادیا۔ غزل کے چند اشعار ملاحظہ فرمائیں۔
سر سے پا تک وہ گلابوں کا شجر لگتا ہے
باوضو ہو کے بھی چھوتے ہوئے ڈر لگتا ہے
میں ترے ساتھ ستاروں سے گزر سکتا ہوں
کتنا آسان محبت کا سفر لگتا ہے
آپ نے امیر خسرو کی اس غزل کو بھی گایا جو صابری برادران کے علاوہ کئی گائیک نے جس کے ذریعہ محفلوں کی تزئین کی۔ دوست محمد خان کے ترنم و انداز نے اس غزل کو خوب نغمگی دی اور داد حاصل کی۔
چھاپ تلک سب چھین لی ری موسے نیناں مِلائی کے
اپنی ہی کر لی نی موسے نیناں مِلائی کے
ہری ہری چوڑیاں گوری گوری بیاں بیاں
پکڑ ہرلی موسے نیاں مِلائی کے
پریم بھٹی کا مدھوا پلا کر
متوالی کر لی نی موسے نینا مِلائی کے
انتخاب غزل کی ایک خوبی یہ رہی کہ جناب دوست محمد خان نے قدیم شعرا اور جدید و نوعمر شعراء کی بہترین غزلوں کو پیشکش کے لئے منتخب کیا جس کی وجہ سے محفل میں قدیم و جدید کے رنگ امتزاج اپنی رعنائیاں بکھیرنے لگے۔
غزل کی بات چھڑ جائے اور ابن انشا کو نہ پڑھا جائے یہ کیسے ممکن ہوسکتا ہے۔ دوست محمد خان نے ابن انشاء کی رواں اور سلیس غزل سے محفل میں خوب سماں باندھا۔ کچھ اشعار قارئین کے ذوق مطالعہ کے لئے پیش خدمت ہے۔
انشاء جی اٹھو اب کوچ کرو اس شہر میں جی کو لگانا کیا
وحشی کو سکوں سے کیا مطلب جوگی کا نگر میں ٹھکانا کیا
اس دل کے دریدہ دامن کو دیکھو تو سہی سوچو تو سہی
جس جھولی میں سو چھید ہوئے اس جھولی کا پھیلانا کی
دوست محمد خان کہتے ہیں کہ غزل کے بادشاہ جگجیت سنگھ کا کہنا تھا کہ ’راگ ہاونس دھنی‘ اور’درگا‘یہ دو راگوں میں غزلیں نہیں گائی جاتی۔ لیکن انہوں نے ان دو راگوں میں غزلیں گائیں۔دوست محمد خان نے بھی ان دو راگوں ’راگ ہاؤز دھنی‘ اور’درگا‘میں مجاہد القاسمی کی غزل کو پیش کیا۔
تونے تصویروں سے کمروں کو سجا رکھا ہے
گھر سجا پیار سے تصویروں میں کیا رکھا ہے
اس قدر الجھاہوا آج کا انسان ہے کہ
خود کو پانے کے لئے خود کو بھلا رکھا ہے
ترقی پسند شاعر ظفر گورکھپوری ادب میں جن کے شاعرانہ عظمتوں کا آج بھی اعتراف کیا جاتا ہے۔ان کی غزل کو پیش کرکے محفل سے داد حاصل کی۔
اٹھاکر اپنی شمعوں کااجا لادے دیا میں نے
ہوا برسوں کی بھوکی تھی نوالا دیدیا میں نے
وہ تنہا راستہ تھا جس سے یادیں آتی جاتی تھیں
اباس کھڑکی کو بھی مکڑی کا جالا دے دیا میں نے
میں بادل تھا مجھے تو دھجیاں ہونا تھا ویسے بھی
زمیں تجھ کو تو سبزی کا دوشالا دے دیا میں نے
پتا توکچھ چلے اس کو خوشی بھی بوجھ ہوتی ہے
وہ زرہ مانگنے آیا ہمالا دے دیا میں نے
وہ میرا واہمہ تھا پر یقیں سا ساتھ رہتاتھا
کسے بے سوچے سمجھے گھر نکالا دے دیا میں نے
بین الاقوامی شہرت یافتہ شہر اورنگ آباد کے معروف نقاد، ادیب، ترقی پسند تحریک کے ممتاز شاعراور فلم بازار کا گیت ’کروگے یاد تو ہر بات یاد آئیگی‘ کے نغمہ نگار، ٹی وی سیریل ’امیر خسرو‘ کے اسکرپٹ رائٹر بشر نواز کا خوبصورت کلام میں مداحوں کے گوش گزار کیا۔
وہ رُت بیتی بات گئی
خوشیوں کی بارات گئی
پھول تو اب بھی کھلتے ہوں گے
خوشبو تیرے ساتھ گئی
قمر اقبال ایک ممتاز صحافی اور مشہور شاعر تھے۔آپ کو صنف ’تثلیث‘ پہ کافی کمال حاصل تھا۔اس کے بعد دوست محمد خان نے قمر اقبال کی خوبصورت غزل ارباب ذوق کے نظر کی۔
بانٹ لے دکھ درد ایسا کون ہے
غیر ہے وہ بھی اپناکون ہے
آنکھ میں پھرتی ہے اک پرچھائیں سی
تو نہیں ہے وہ تو تجھ سا کون ہے
تاب سچائی کی لائے کیا کوئی
سامنے سورج کے ٹھہرا کون ہے
مرنے والے کو تو کاندھا دے دیا
ورنہ سچ پوچھو تو زندہ کون ہے
ڈھونڈتے ہیں سب یہاں خوشیاں قمرؔ
درد کو اپنا سمجھتا کون ہے
دکن میں غزل گوئی کی بات کی جائے خصوصاً شہر اورنگ آباد میں اور معروف نقاد،محقق، مترجم،ادیب اور شاعر اسلم مرزا کا مقبول کلام نہ پڑھا جائے تو محفل ادھوری لگتی ہے دوست محمد خان نے اسلم مرزا صاحب کی بہت ہی پیاری غزل کو اپنی آواز اور خوبصورت نشست وبرخواست کی ادائیگی سے ماحول کو پر کیف بنادیا۔ غزل سے سامعین محظوظ ہوئے۔ اس موقع پر جناب فواد صدیقی نے صاحب کلام شاعر اسلم مرزا صاحب کا استقبال کیا۔غزل ملاحظہ فرمائیں۔
مکیں خاموش ہیں گھربولتے ہیں
ہمارے شہر میں ڈر بولتے ہیں
بصیرت ہو تو قطرے میں سمندر
سماعت ہو تو منظر بولتے ہیں
وصال یار کا افسوں سلامت
رگ و پے میں سمندر بولتے ہیں
وہیں کھلتا ہے ظرف پادشاہی
جہاں پورس سکندر بولتے ہیں
سجاؤ ان کے شانوں پر صلیبیں
جو سچی بات منہ پر بولتے ہیں
اس کے بعد دوست محمد خان نے اورنگ آباد کے ابھرتے نوجوان شاعر احمد اورنگ آبادی جن کی غزل میں عشق و وفا کا درد بھی ہے، انسانی رشتوں کی پامالی، کیفیت رنج۔ کیفیتِ رنج و الم و اصلاحی مضامین کو علمِ بیان کی روشنی میں اچھوتے استعارے و تشبیہات کے ذریعہ قلم بند کیا ہے۔اس غزل کے چند اشعار ملاحظہ فرمائیں۔
کیا اور حالِ زار کا قصّہ سنائیں ہم
ہر سو بدن پہ زخم ہیں کیاکیا دکھائیں ہم
پتھر کی دوستی میں جو شیشہ ہوا تھا چور
پھرتے ہیں اپنے سر پہ وہ ملبہ اُٹھائیں ہم
غفلت میں بحر عشق کو پایاب جان کر
بیٹھے ہیں اک سراب میں غوطا لگائیں ہم
محفل غزل کا پروگرام رات 12/بجے تک چلتا رہا۔ پروگرام میں اردو ادب نواز شخصیات و معزز شہریان کثیر تعداد میں موجود تھیں۔جناب خالد سیف الدین کے شکریہ پر پروگرام کااختتام عمل میں آیا۔پروگرام کے میزبان جناب سالک حسن خان، کنوینئر محمد اختر خان، کوکنویئنرسید ذاکر اور رابطہ کار سید اطہر احمد تھے۔
وارثان حرف و قلم ایک ایسی ادبی انجمن ہے جس نے ادب کی کہکشاؤں کو پروقار انداز میں نہ صرف نئی نسل سے متعارف کروانے کا سنگ میل ڈالا ہے ساتھ ہی ادب میں بے لوث خدمات انجام دینے والی محرر شخصیات کے نام سے شام منعقد کرکے اعزاز دیا ہے۔یہی نہیں اس ادبی فورم کے تحت نئی نسل کے نمائندہ شعراء اور ادباء کو مواقع بھی دیے جاتے ہیں کہ وہ اپنی تخلیق و کلام استاد شعراء و ادباء کے سامنے پیش کرے اور خاص بات وہاں حاضر مایہ ناز ادبی شخصیات نسل نو کے مواد کی حسب ضرورت تصحیح کرتے ہوئے ان کی ہمت افزائی کرتے ہوئے ادبی میدان میں آگے بڑھنے کی نیک خواہشات بھی پیش کرتے ہیں۔
یہ ایسا خوبصورت ادبی فورم ہے جو ادباء و شعراء کا نہ صرف اعتراف خدمات و استقبالیہ منعقد کرتا ہے ساتھ ہی ادب میں نمو پارہی نئی تخلیقات کو حوصلہ بھی بخشتا ہے۔