اخلاقی مضامین

بزرگوں کا بین الاقوامی دن لائق عزت و اکرام ہے اُن کا مقام از بلال احمد پرے

جی این کے اردو

۲۷ نومبر ۲۰۲۱

بزرگوں کا بین الاقوامی دن
لائق عزت و اکرام ہے اُن کا مقام

بلال احمد پرے
ہاری پاری  گام ترال
رابطہ – 9858109109

اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی نے ۱۴ دسمبر ۱۹۹۰ء کی تاریخ پہ ایک قرار داد کے ذریعے یکم اکتوبر کو دنیا بھر میں معمر افراد کا عالمی دن یا بزرگوں کا بین الاقوامی دن ( International Day of Older Persons ) کے طور پر منانے کا اعلان کیا ہے ۔ حکومت ہند بھی، محکمہ سماجی انصاف کی طرف سے ہر سال یکم اکتوبر کو ان کے اعزاز میں ” ویو شریشٹھا سمّان ” جیسے قومی ایوارڈ سے نوازتی ہے – یہ قومی ایوارڈ نامور بزرگ شہریوں اور اداروں کو اس خاص موقع پر صدر جمہوریہ ہند کے ہاتھوں دیا جاتا ہے –

بزرگ یعنی عمر رسیدہ، عاقل ریش و بال سفید عموماً جن کی عمر سیٹھ برس سے زائد ہو چکی ہے بزرگ یا سینئر شہری ( Senior Citizens ) کہلاتے ہیں – بے شک آج ہم بچے اور جوان ہیں لیکن کل ہم بھی بوڑھے ہو جائے گے اور معمر افراد ( Older Persons ) کہلائے گے – آج کا یہ دن دراصل ہمیں یاد دہانی کرا رہا ہے کہ ہمارے اوپر ان معمر افراد کے حقوق کی ذمہ داری عائد ہے جس سے ہمیں قبل از وقت ادا کرنا چاہیے نہیں تو کل ہمارے ساتھ بھی اسی طرح کا رویہ اختیار کیا جائے گا –

آج کل معاشرے میں اگر کوئی بے بس و بے سہارا کی زندگی بسر کر رہا ہے تو وہ معمر افراد ہی ہیں جنہیں مختلف قسم کے تکالیف دیے جا رہے ہیں- اس بات کا مطلب ہرگز یہ نہیں ہے کہ ہمارے یہاں کیا ایسے افراد موجود نہیں جو اپنے بزرگ والدین یا دادا و دادی کو ادب و احترام سے پیش نہیں آتے – بلکہ ہمارے یہاں کئیں افراد ایسے ہیں جو حضرت اویس ؒ کرنی کی طرح اپنی والدہ کے ایک ایک لمحے کی فکر رکھتے ہیں اور اپنی نیندیں و دیگر خواہشات ان کے لئے قربان کرتے ہیں – کئیں لوگ ایسے بھی ہیں جو حضرت موسیٰ علیہ السلام کی امت کے اس قصائی کی طرح اپنی ماں کے لئے تمام قسم کی سہولیات میسر رکھتے ہیں جو روزانہ شام کے وقت اپنی ماں کے لئے نرم گوشت لایا کرتا تھا – اللہ پاک ان سب کی اس خدمت کو قبول فرمائے- لیکن اکثر و بیشتر ایسے افراد کے ساتھ نہایت ہی بے ادبی، بد سلوکی اور اجنبی انسان کا رویہ اختیار کرتے ہیں – 
اس وقت پوری دنیا میں تقریباً سات سو ملین معمر افراد موجود ہے – اور خدشہ ہے کہ ۲۰۵۰ ء تک یہ تعداد دو بلین تجاوز کر پائے گی – اسی طرح بھارت میں ایسے افراد کی تعداد چودہ کروڑ ( 13.8) کے قریب ہے جس میں نصف سے زیادہ عورتوں کی تعداد ہے – اور خدشہ ہے کہ ۲۰۵۰ ء تک یہ تعداد تین گنا بڑھ سکتی ہے – حیران کن بات یہ ہے کہ اس میں سے ڈیڑھ کروڑ معمر افراد تنہائی کی زندگی گزر بسر کر رہے ہیں جس میں سے تین چوتھائی عورتیں ہے – اور اکتالیس فیصدی سے زیادہ اس عمر میں ابھی بھی کام کر رہے ہیں – تازہ ترین اعداد و شمار کے مطابق کیرالہ کی ریاست میں سب سے زیادہ ( ساڑھے سولہ فیصدی ) معمر افراد ہیں جب کہ بہار اور یونین ٹریٹری جموں و کشمیر میں سب سے کم (ساڑھے سات فیصدی ) ایسے افراد کی تعداد ہیں –
یہ ایک مسلمہ حقیقت ہے کہ ہمارے وجود کا سبب والدین ہیں ۔ ان ہی کی پرورش اور نگرانی میں ہم پلے ، بڑھے اور شعور کو پہنچے ہیں – انہوں نے جس غیر معمولی قربانی، بے مثل جان فشانی اور انتہائی شفقت سے ہماری سر پرستی کیں ہیں اس کا تقاضا ہے کہ ہم ہمیشہ ان کے احسان مند رہتے اور ہمارے دل کا ریشہ ریشہ ان کا شکر گزار رہتا – اللہ تعالٰی کا ارشاد ہے کہ ” ہم نے وصیت کی، میرا شکر ادا کرو اور اپنے ماں باپ کے شکر گزار رہو – ” (لقمان)
حضرت ابو امامہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہے کہ ایک شخص نے نبی اکرم ﷺ سے پوچھا ” یا رسول اللہﷺ ! ماں باپ کا اولاد پر کیا حق ہے ؟” آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا، ماں باپ ہی تمہاری جنت ہیں اور ماں باپ ہی دوزخ – ‘‘ (ابن ماجہ)
یعنی ماں باپ کی خدمت سے ہی دونوں جہاں کی بھلائی، سعادت مندی اور عظمت حاصل ہوتی ہے ۔ والدین کو ہمیشہ خوش رکھنا چاہیے اگرچہ والدین ایسے تقاضے و مطالبے کرنے لگیں جو توقع کے خلاف ہو اور ان کی کسی بات سے اکتا کر جواب میں جھڑکیاں نہ دو۔
اللہ تعالٰی کا ارشاد ہے ” اگر ان میں سے ایک یا دونوں تمہارے سامنے بڑھاپے کی عمر کو پہنچ جائیں تو تم ان کو اُف تک نہ کہو، نہ اُنہیں جھڑکیاں دو – ”  (بنی اسرائیل)
دراصل بڑھاپے کی عمر میں سوچنے، سمجھنے، بولنے، سننے و چلنے کی صلاحیت کم ہوتی جا رہی ہے اور انسان توقع کے خلاف تقاضے اور مطالبے کرتا رہتا ہے ۔ کئیں بزرگ ایک ہی بات کے متعلق بار بار پوچھتے رہتے ہیں جس کے ردعمل میں انہیں واپس ڈانٹا جا رہا ہے – کیا ہمیں اس وقت اپنے بچپن میں کی گئی حرکتوں کا اندازہ ہوتا ہے، جب ہم اپنے والدین کو بار بار کسی چیز کا نام پوچھتے رہتے تھے۔ اس کے برعکس ان کا ہر دفعہ بڑے پیار و محبت، شفقت اور بے انتہا نرم لہجے سے بتانا کیا احسان مندی تھی، وہ تھکتے اور نہ تنگ آجایا کرتے تھے ۔ کئیں بزرگ حضرات تکلیف ہونے کے سبب رات بھر سو نہیں پاتے، لیکن عزیز فرزندوں میں وہ محبت و شفقت کہاں جو انہیں بھی سونے نہ دیں اور والدین کی خدمت کرنے کے لئے جگا دیں ۔ چہ جاۓ کہ صبح انہیں اس پر تانے سے بھرا داستان سننا پڑتا ہے ۔ کاش ہمیں بچپن کی وہ ایک رات یاد پڑ جاتی جب ہم اپنے والدین کے بستر پر روتے روتے پیشاب کیا کرتے تھے اور اس طرح ان کی نیند بھی اڑایا کرتے تھے اور ان کے کپڑے بھی گندہ کیا کرتے تھے – لیکن اس سب کے باوجود بھی ان کا وہ بے انتہا محبت و شفقت سے پیش آنا پھر گلے لگا کر ہمیں خشک بستر پر سُلا دینا کیا احسان تھا- جب کہ وہ خود گیلی جگہ سویا کرتے تھے –

والدین کا ادب و احترام کرنے کا سلیقہ قرآن کریم نے یوں فرمایا کہ ” اور ان سے احترام کی بات کیجئے‘‘ (بنی اسرائیل) اسی طرح سورۃ الاحقاف میں اللہ تعالٰی نے فرمایا ہے کہ “اور ہم نے انسان کو اپنے ماں باپ کے ساتھ حُسنِ سلوک کرنے کا حکم دیا ہے -“

یہاں رب العالمیین نے ان کی بزرگی و برتری اس حد تک عظیم و بالا کر دی کہ انسان کو ان دونوں کے ساتھ نرم مزاجی، محبت و شفقت، نہایت ادب و احترام سے پیش آنے کا حکم صادر فرمایا ہے –

حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا ” اللہ کی خوشنودی والد کی خوشنودی میں ہے اور اللہ کی ناراضگی والدین کی ناراضگی میں ہے -”  ( ترمذی،  ابن ماجہ)

آج ہم دیکھ رہے ہیں کہ انسان کس قدر اخلاقی طور گر چکا ہے اور آئے روز اس بات کا مشاہدہ ہوتا ہے کہ ہم کس طرح سے اپنے بزرگوں سے پیش آتے ہیں – انہیں رشتہ داروں، دوستوں، ہمسایوں و دیگر رفیقوں سے گلہ نہیں بلکہ اپنے لخت جگروں سے شکوہ ہے کہ جن کے ایسے رویے نے انہیں بڑھاپے کی زندگی میں بے سہارا اور تنہائی کی زندگی گزارنے پہ مجبور کر دیا ہیں – وہ بادشاہ ہو کر دوسروں کے مدد کے محتاج بن گئے ہیں- انہیں بے یارومددگار چھوڑا گیا ہے – اپنا گھر ہوتے ہوئے انہیں سرکاری و نیم سرکاری گھروں میں پناہ لینی پڑی ہے –
حال ہی میں ۱۹ ستمبر کو ممبئی ہائی کورٹ نے نوے سال کے بزرگ شہری اور اس کی نواسی سالہ بیوی کو راحت دیتے ہوئے ان کے خلاف ان کے بیٹے کی درخواست پر سماعت کرتے ہوئے اس سے ” غم زدہ کیس ” قرار دے دیا – عدالت عظمٰی نے سینئر شہری ٹربیونل کی ہدایت برقرار رکھتے ہوئے “بیٹے صرف شادی تک بیٹے ہیں جب کہ بیٹیاں ہمیشہ بیٹیاں ہیں ” حکم صادر کرتے ہوئے اپنی منفرد انداز کا فیصلہ ایسے بزرگوں کے حق میں سنایا –
حالانکہ دین اسلام نے بزرگوں کی عزت و تکریم، ادب و احترام اور حسن سلوک سے پیش آنے کی تلقین ابتدا سے فرمائی ہے – اسلام نے جہاں اللہ کے حقوق بیان فرماۓ ہے وہاں والدین کے حقوق بھی واضح انداز میں بیان کیے ہیں ۔ قرآن پاک نے ماں باپ کے حقوق کو خدا کے حق کے ساتھ ساتھ بیان کیا ہے ۔ اللہ کا ارشاد ہے ” اور آپ کے رب نے فیصلہ فرما دیا کہ تم اللہ کے سوا کسی کی بندگی نہ کرو اور والدین کے ساتھ حسن سلوک کرو – ‘‘ (بنی اسرائیل)
اللہ رب العالمیین نے غیر مسلم ماں باپ ہوتے ہوئے بھی اُن کے ساتھ حسن سلوک، ادب و احترام اور خدمت کرنے کا حکم فرمایا ہے۔ البتہ اگر وہ شرک و معصیت کا حکم کریں تو اسے انکار کرنا (سورۃ العنکبوت) لازم ہے- قرآن کریم نے اولاد کے کمائے ہوئے مال کا اولین حقدار والدین (البقرہ) کو ٹھہرایا ہے – نہ کہ انہیں بزرگ ہونے پر گھر سے باہر کرنے اور اولڈ ایج ہوم کی طرف بیجھنے کی تعلیم دی ہے – اس کے برعکس آج ہمارا حال یہ ہے کہ ہم اپنے والدین کے کمائے ہوئے مال کو خود تقسیم کرنے بیٹھتے ہیں – اور ستم ظریفی یہ ہے کہ بعض اوقات والدین کو بھی دو بھائیوں میں تقسیم کیا کرتے ہیں – ایسے لوگ چھوٹی فیملی بڑا محل کا نعرہ بلند کر کے الگ تھلک زندگی گزارنا پسند کرتے ہیں ۔

ایک دفعہ ایک اولاد نے اپنے باپ کی شکایت دربار رسالت مآب ﷺ میں لائی، شکایت سننے پر رسول اکرم ﷺ نے اس کے باپ کو بلاوا بھیجا ۔ جب لاٹھی ٹیکتا ہوا وہ کمزور بوڑھا بزرگ صحابی چل پڑا تو دل میں رنجیدگی پیدا ہوئی، دل ہی دل میں درد کی داستان بھرے شعر پیدا ہونے لگے – ادھر جبرائیل ؑ رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں اللہ کا حکم لے کر حاضر ہوتے ہے کہ پہلے اس بزرگ کے دل کا وہ حال سنا جائے جو وہ دل ہی دل میں سوچتا رہا – جب حاضر ہوا تو اس نے یوں عرض کیا۔ ” اللہ کے رسول ﷺ ایک زمانہ تھا جب یہ میرا اولاد کمزور اور بے بس تھا اور مجھ میں طاقت تھی، میں مالدار تھا اور یہ خالی ہاتھ تھا – یہ روتا تھا تو ہم سو نکیں سکتے، بیمار ہو جاتا تو طبیب کے پاس دوڑ پڑتا کہیں مر نہ جائے،  گرمی سے بچاتا رہا، میں نے کبھی اس کو اپنی چیز لینے سے نہیں روکا- آج میں کمزور ہوں، اور یہ تندرست اور قوی ہے – میں خالی ہاتھ ہوں، اور یہ مالدار ہے اب یہ مال مجھ سے بچا بچا کر رکھتا ہے – زندگی کی آخری سانسیں اس کی چھاؤں میں گزرنا چاہتا تھا – اب جوانی آتے ہی اس کے تیور بدل گئے – ” اس بزرگ والد کی یہ باتیں سن کر اللہ کے نبی ﷺ رو پڑے اور اس شکایت دہندگان لڑکے کی طرف مخاطب ہوکر فرمایا ” جا تو بھی اور تیرا مال بھی، سب تیرے باپ کا ہے “۔
یہاں میں محکمہ سماجی بہبود، جموں و کشمیر کی ذکر کرنا مناسب سمجھتا ہوں جنہوں نے ۱۹۹۵ ء سے معمر افراد کی خدمت کرنے کا بھیڑہ اٹھایا ہے  – جہاں ایسے افراد کو ماہانہ طور پر ایک خاص قسم کا پنشن دیا جا رہا ہے جس کے تحت اس وقت تقریباً 67060 رجسٹرڈ معمر افراد ماہانہ وظیفہ حاصل کرتے ہیں – اس کے مزید جموں میں ایسے افراد کے لئے ” ڈے کئیر ہوم ” بنایا گیا ہے جہاں وہ اپنے ہم سینوں کے ساتھ بیٹھ کر محو گفتگو کرتے ہیں اور اپنے اظہار خیالات و تجربات بھی آپس میں شئیر کرتے ہیں –
الغرض ہمیں اپنی ذمہ داریوں کو بر وقت سمجھنا چاہئے اور اپنے بزرگوں کا ادب و احترام، حسن سلوک اور نہایت ہی نرم لہجے سے گفتگو کرنا سیکھنا چاہئے – علماء کرام کو بھی چاہیے کہ عوام الناس کو اس ضمن میں پوری طرح سے بے دار کریں – انتظامیہ کو چاہیے کہ ایسے سبھی افراد کے حق میں ملنے والا ماہانہ وظیفہ مزید بڑھایا جائے تاکہ وہ اپنی ادویات و دیگر ضروری اشیاء خرید سکیں – عدلیہ و دیگر قوانین پر عمل درآمد کرانے والی ایجنسیوں کو بھی چاہیے کہ سینئر شہری قوانین کو نافذ العمل بنایا جائے اور ایسے افراد کے ساتھ گھریلو تشّدد کرنے والے کے خلاف سخت سے سخت کاروائی عمل میں لانی چاہیے- ہمیں قرآن کریم اور اُسوہ رسول ﷺ کے رنگ میں رنگنا چاہیے تاکہ ہمارے بزرگوں کو در در کی ٹھوکریں کھانا نہ پڑیں – یہی وجہ ہے کہ وہ غم و پریشانی کے عالم میں بے سہارا و بے بسی کی زندگی نہیں گزارتے ہوتے – اللہ پاک ہمیں اپنے بڑوں کی عزت و تکریم کرنے کی توفیق عطا فرمائے- آمین 

مصنف کے بارے میں

GNK Urdu

ایک تبصرہ چھ