انٹرویو غیر افسانوی نثر

ادب اطفال (تعمیر و تشکیل) کی موجودہ صورتحال پر احمد حاطب عرف ابونثر صاحب سے سراج عظیم صاحب کی گفتگو

عزیزان بچپن!  آج ہم آپ کے روبرو اس محترم شخصیت کو پیش کر رہے ہیں جو دور حاضر میں برصغیر کے ادب اطفال کا معتبر نام ہے۔ وہ دور موجود کی ضرورتوں سے بجا طور واقف تو ہے مگر تہذیب و اخلاق، دینی و سماجی اقدار کا پاسدار بھی ہے۔ وہ زمانے کے چلن کا حامی ہے مگر روایت اور میعانہ روی کا بھی پیروکار ہے۔ زبان کے رموز کا شیدائی شستہ زبان کا ماہر اور نرم خو۔

جی ہم برصغیر ہند و پاک کی ادب اطفال کی بہت مشہور و معروف علمی شخصیت محترم احمد حاطب جو پاکستان سے تعلق رکھتے ہیں مگر ان کے اجداد ہندوستان کے اعظم گڑھ سے تھے۔ آئیے ان سے گفتگو کرتے ہیں۔

سراج عظیم: محترم احمد حاطب عرف ابونثر صاحب بچپن گروپ میں آپ کا گروپ کے تمام لوگوں کی جانب سے استقبال ہے۔  اَلسَلامُ عَلَیْکُم وَرَحْمَۃُ اَللہِ وَبَرَکاتُہُ

احمد حاطب : اس عاجز کا نام احمد حاطب صدیقی ہے۔ قلمی نام ابونثر اختیار کیا۔ قلمی نام صرف پُر مزاح تحریروں کے لیے استعمال کرتا ہوں۔
سراج بھائی کے کلماتِ تحسین میں محبت اور مبالغے کا امتزاج ہے۔
اب مجھے ”سٹھیائے“ ہوئے پانچ برس ہو چکے ہیں۔ اس کی وجہ اس کے سوا کیا ہو سکتی ہے کہ میری پیدائش 1956ء میں ہوئی تھی۔
میرے والدین کا تعلق بھارت کی ریاست اتر پردیش کے ضلع مؤ کے ایک خوب صورت موضع محی الدین پُور سے تھا۔ میرے والدین کے زمانے میں یہ موضع ضلع اعظم گڑھ کا حصہ تھا۔ میرے بڑے ابا (تایا) مولانا ابوالجلال ندویؒ دارالمصنفین اعظم گڑھ کے رفیق تھے۔
میں کراچی میں پلا،بڑھا وہیں ابتدائی تعلیم بھی حاصل کی اور اعلیٰ تعلیم بھی۔ جامعہ کراچی سے ریاضی میں بی ایس سی آنرز کیا، معاشیات پڑھی اور معارف اسلامیہ میں ایم اے کیا۔
38 برس تک پاکستان انٹر نیشنل ائرلائنز میں ملازمت کرنے کے بعد 2016ء میں اسلام آباد ائرپورٹ سے مارکیٹنگ مینیجر (درآمدات و برآمدات) کے منصب سے سبکدوش ہوا۔
اب مستقل قیام اسلام آباد میں ہے۔ یہاں رفاہ انٹر نیشنل یونیورسٹی میں طلبہ و طالبات کو علوم ابلاغیات کی تعلیم دے رہا ہوں۔ ساتھ ہی ایک نصاب ساز ادارے میں بچوں کی تعمیر سیرت اور تعمیر کردار کے لیے (کہانیوں، تمثیلات اور نظموں پر مشتمل) ہم نصابی کتب تیار کرنے کا کام کر رہا ہوں۔ علاوہ ازیں کراچی سے نکلنے والے ایک ہفت روزہ مجلے میں ”غلطی ہائے مضامین“ کے مستقل عنوان سے ہفتہ وار کالم تحریر کر رہا ہوں۔
اساتذہ کی رہنمائی اور حوصلہ افزائی کے طفیل ثانوی جماعتوں ہی سے بچوں کے لیے کہانیاں لکھنے اور نظمیں کہنے کا سلسلہ شروع ہو گیا تھا۔ اشاعت کا آغاز 1964ء سے بچوں کے لیے شائع ہونے والے اخباری صفحات اور بچوں کے رسائل سے کیا۔
اب تک بچوں کے لیے دس کتب شائع ہو چکی ہیں۔ دو زیر تکمیل ہیں۔ بڑوں کے لیے چار کتب شائع ہو چکی ہیں۔ ایک زیر تکمیل ہے۔بچوں کے لیے کہی ہوئی میری دو نظموں کو قارئین کی جانب سے زیادہ پزیرائی ملی۔ ایک ”یہ بات سمجھ میں آئی نہیں“ دوسری ”استاد محترم کو میرا سلام کہنا“۔
بچوں کے لیے لکھی ہوئی کئی پُر مزاح کہانیاں بھی قارئین سے پسندیدگی کا شرف حاصل کر چکی ہیں۔
یہی کچھ ہے ساقی متاعِ فقیر

سراج عظیم:محترم یہ ہمارے بچپن گروپ کی روایت ہے کہ ہم جب بھی کسی شخصیت کے روبرو ہوتے ہیں تو ان کا مختصر تعارف اپنے ممبران کے لئے چاہتے ہیں آپ کا تعارف پیش کر دیا ہے۔ تعمیل ارشاد ہوگئی۔
سراج عظیم: اوہ آپ نے تعارف پیش کردیا۔ شکریہ۔ آپ ایک دینی اور علمی خانوادہ سے تعلق ہے۔ کیا کبھی اپنی اصل جگہ یا کہوں جہاں جڑیں تھیں وہاں تشریف آوری ہوئی

احمد حاطب: جی ہاں 1981ء میں آبا و اجداد کے مسکن کی زیارت کا شرف حاصل ہوا تھا۔ اس موقع پر داعالمصنفین کا بھی دورہ کیا۔ اس وقت کے دارالمصنفین کے ناظم مولانا صباح الدین عبدالرحمٰن مرحوم نے بہت عزت افزائی فرمائی تھی۔

سراج عظیم: ہم نے نور وغیرہ میں آپ کی تخلیقات پڑھیں۔اس میں ہماری یاداشت کے مطابق دین کا پہلو کار فرما تھا بہت بعد میں مزاح کا رنگ وجہ کیا تھی۔
سراج عظیم:یعنی چالیس سال قبل تشریف لائے تھے۔

احمد حاطب: بڑوں سے سیکھا تھا کہ بچوں سے پُر مزاح انداز میں گفتگو کی جائے تو زیادہ مانوسیت محسوس کرتے ہیں۔ نظموں اور کہانیوں میں مزاح کا پہلو اسی غرض سے اپنایا کہ بچے نظم یا کہانی میں دلچسپی محسوس کریں گے اور جو پیغام ان تخلیقات میں پوشیدہ ہے وہ ان کے دل و دماغ کا لاشعوری جزو بن جائے گا۔
احمد حاطب: جی ہاں۔

سراج عظیم: آپ کے ادبی سفر کی شروعات کے محرکات کیا کیا تھے؟

احمد حاطب: جیسا کہ تعارفی کلمات میں عرض کیا ہے، اساتذہ نے ان صلاحیتوں کا اندازہ لگایا اور تحریک دی کہ لکھا کرو۔ نظموں اور کہانیوں پر انعامات بھی دیے۔ اصل محرک اساتذہ ہی بنے۔ بعد میں جب احباب اور اہلِ خاندان کی طرف سے بھی پذیرائی ہونے لگی تو محرکات میں اضافہ ہوگیا۔ شعوری طور پر مقصدیت اختیار کرنے کا مرحلہ بڑے ہونے کے بعد آیا۔

سراج عظیم: کیا آج کے پر آشوب دور میں ادب اطفال کی افادیت ہے۔ آپ کا خیال؟

احمد حاطب: دور پُر آشوب ہو یا پُر سکون، بچے تو ہر دور میں ہوتے ہیں۔ ان کی تادیب اور ان کی تربیت کا خیال ہر مہذب قوم رکھتی ہے۔ لہٰذا میرا خیال ہے کہ ادبِ اطفال کی افادیت کسی دور میں کم یا ختم نہیں ہو سکتی۔

سراج عظیم: اگر ہم غلط نہیں تو غالباً آپ نے بہت چھوٹی عمر سے لکھنا شروع کردیا تھا؟

احمد حاطب: جی ہاں۔ سلطان ناصرالدین محمود پر میری تحریر بعنوان ”غریب بادشاہ“ جب روزنامہ ”انجام“ کراچی کے بچوں کے صفحے پر (1964ء میں) شائع ہوئی تو میری عمر آٹھ برس تھی۔ اس کہانی میں میرے استاد محترم واجد علی زیدی نے اصلاح بھی دی تھی۔

سراج عظیم: ہم نے ادب اطفال کی افادیت پر سوال کئی وجوہات سے کیا تھا۔ مثلاً آج کا بچہ اسکرین زدہ، آج کا بچہ خلائے بسیط کا مسافر ہے اپ اخلاقیات اور طلسمات کی دنیا سے اسے بہلا نہیں سکتے۔ ایسے میں کتابوں کے ادب اطفال کو کچھ نئے زاویے تلاش کرنے کی ضرورت ہے۔ آپ کیا سوچتے ہیں؟
سراج عظیم: آٹھ سال کی عمر تو کمسنی کی عمر اور سلطان محمود پر مضمون قابل ستائش۔

احمد حاطب: آپ کے اس سوال کے اب کئی پہلو ہو گئے ہیں؟
آپ کا بچہ جن برقی ذرائع کو استعمال کر رہا ہے ان پر بچے کی دلچسپی کی جو چیزیں ہیں (کارٹون یا بصری کہانیاں، تمثیلات وغیرہ) وہ بھی کسی کے ذہن اور کسی کے قلم ہی سے جنم لیتی ہیں۔ یہ بھی ادبِ اطفال ہی ہے۔
رہی طلسمات کی دنیا، تو اب وہ کتابوں سے نکل کر اسکرین پر آگئی ہے۔ پہلے بچے کو اڑنے والے انسان یا طلسماتی مخلوق کا تصور کرنے کے لیے اپنے تخیل کی صلاحیت استعمال کرنی پڑتی تھی یا تصاویر میں دیکھ لیتا تھا۔ اب متحرک بصری مناظر اس کی آنکھوں کے سامنے ہوتے ہیں۔
اخلاقیات کا تعلق اس پیغام سے ہے جو بچہ محض دیکھ کر اخذ کر لیتا ہے۔ مثلاً اگر کرداروں کے ملبوسات نامناسب ہیں تو بچے کی نظر میں ستر چھپانے کی اہمیت نہیں رہے گی۔ اگر کوئی کردار مکاری، فریب اور دھوکے سے کامیابی حاصل کر لیتا ہے اور دوسروں کو زیر کر لیتا ہے تو دھوکا، فریب اور مکاری بچے کے نزدیک کامیابی کا طریقہ قرار پائے گی۔
اگر انھیں بصریوں اور کارٹون فلموں کے ذریعے سے ہمارے اہل قلم اس کے برعکس پیغامات دیں جو اعلیٰ اخلاقی اقدار پر مبنی ہوں تو یہی پیغامت بچے کے خیالات اور سیرت و کردار میں جذب ہو جائیں گے۔

سراج عظیم: آپ کیا سمجھتے ہیں آج کا ادب اطفال عصر کے مطابق اس کے تقاضوں کو پورا کرتا ہے۔ کیا ہمارا ادب اطفال وہی فرسودہ روایات اور نہج پر چل رہا ہے
جو فرسودہ ہے وہ تو فرسودہ ہو ہی گیا ہے۔ مثلاً اب قصہ چہار درویش، طلسم ہوش ربا، قصہ حاتم طائی، الف لیلہ و لیلہ یا داستان امیر حمزہ وغیرہ کی زبان بچوں تو کیا بڑوں کے لیے بھی ناقابل فہم ہوگئی ہے۔
نئی دنیا میں نئے ادبِ اطفال کی ضرورت ہے۔ وہ ادب جو جدید تقاضوں کے مطابق ہو۔ مگر سچائی، دیانت، انسانی ہمدردی اور رحم دلی جیسی اعلیٰ اخلاقی اقدار کبھی فرسودہ نہیں ہوں گی۔
سراج عظیم: یعنی آپ کہہ رہے ہیں کہ بصری کارٹون کہانیاں جیسے سن شانگ، پوکیمان، یا وہ کارٹون جو صرف دور موجود کے بچوں کی غلط باتوں کو زیادہ پروجیکٹ کرتے ہیں۔ وہ اخلاقی اور تہزیبی تاثر چھوڑتے ہیں۔ یا کچھ اور؟

احمد حاطب: ہمیں یہ دیکھنا چاہیے کہ جو میسر ادبِ اطفال جدید ذرائع ابلاغ سے آ رہا ہے وہ کس ذہن نے تخلیق کیے ہیں اور تخلیق کاروں کے اصل مقاصد کیا ہیں۔ ہر موجود چیز ہمارے بچوں کے لیے مفید نہیں ہو سکتی۔ ہمیں دوسروں کا دست نگر بنے رہنے کے بجائے اپنے مقاصد اور اپنی تہذیب، ثقافت اور اپنی اقدار کے مطابق اپنے بچوں کے جدید ادب خود تخلیق کرنا چاہیے۔ مگر اس میں پڑتی ہے محنت زیادہ۔ سرمایہ بھی زیادہ لگتا ہے۔ تاہم ترجیحات کی بات ہے۔ ہم فضولیات کے لیے بے پناہ رقم جھونک دیتے ہیں۔ مگر ضروریات کے لیے کفایت سے کام لیتے ہیں۔

سراج عظیم: یہ آپ کہہ رہے ہیں مگر تجربہ کچھ اور کہتا ہے۔ کیا آج کی نسل نو اخلاقی اقدار، تہزیب اور دین کی صحیح فہم و ادراک کا مظاہرہ کر رہی ہے۔ کیا اس میں قصور ہمارا ہے، سماج کا ہے، والدین یا اساتذہ کا؟

احمد حاطب: بچے ہمیشہ بڑوں کے نقال ہوتے ہیں۔ جیسے بڑے، ویسے بچے۔ بڑوں میں صرف گھر کے بزرگ شامل نہیں۔ گھر سے باہر معاشرہ جن لوگوں کو ”بڑے لوگ“ کہتا ہے وہ بچوں کی نظر میں بھی بڑے لوگ ہوتے ہیں۔
میں اساتذہ اور والدین کے لیے کی جانے والی تربیتی گفتگو میں اکثر کہا کرتا ہوں کہ ہر بچے کے اندر ایک طوطا اور ایک بندر چھپا ہوتا ہے۔ طوطا آپ کے کہے کی نقل کرتا ہے اور بندر آپ کے کیے کی۔صرف بچوں کو مورد الزام ٹھیرانا درست نہیں۔

سراج عظیم: آپ کا کہنا ہے کہ جو ادب تحریر کر رہے ہیں وہ بچوں کے معیار اور استعداد کے مطابق نہیں۔ ہمیں دور موجود کے بچوں کی ذہنی میلان کے مطابق بصری ادب اطفال کی شروعات کرنا ہوگی تب ہمارے بچے اپنے اردو کے بچوں کے ادب کی طرف متوجہ ہوں گے۔ یا کچھ اور۔

احمد حاطب: کتاب کا دور ابھی کلیتاً ختم تو نہیں ہوا ہے۔ مگر کتاب اپنے مواد ہی نہیں تزئین و آرائش کے لحاظ سے بھی بچے کے لیے جتنی پر کشش ہوگی بچہ اتنا ہی اس کی طرف متوجہ ہوگا۔ مگر بچہ جب دیکھتا ہے کہ (والدی اور اساتذہ سمیت) اس کے تمام بڑوں میں سے کوئی بھی کتاب کی طرف کوئی توجہ ہی نہیں دیتا تو وہ خود بھی اسے کار فضول ہی سمجھتا ہے۔سمعی اور بصری ادب کا خانہ ہمیں خالی نہیں چھوڑنا چاہیے۔ اس خالی جگہ کو جو بھی پُر کرے گا بچے اسی کو رغبت سے دیکھیں گے۔ لہٰذا ادب اطفال تخلیق کرنے والوں کے لیے اس طرف توجہ دینا لازم ہے۔

سراج عظیم: ہم نے تو بچوں کی ادب اطفال میں عدم دلچسپی کا ذکر کیا ان کو مورد الزام نہیں ٹھہرایا۔ ہم بھی وہی پوچھنا چاہ رہے ہیں کہ ہم لوگ یا زمانہ کی بے ہنگم ترقی یا سائنس اور ٹیکنالوجی کا غلبہ۔ آپ بصری ادب کی بات کررہے ہیں۔ ہم آج تک کوئی کارٹونی کردار خلق نہیں کرسکے۔ ہمارے ادب کی سمت کیا ہے؟

احمد حاطب: کردار ہماری داستانوں میں بنے بنائے موجود ہیں۔ ان کو نئے انداز سے پیش کرنے کے لیے نئے تخلیقی ذہن کی ضرورت ہے۔ حاتم طائی کی تمام کہانیوں کو ہم جدید ٹیکنالوجی کے ذریعے سے نئے انداز میں پیش کر سکتے ہیں۔ الہٰ دی کی کہانی شاید پیش بھی کی گئی ہے۔ اسی طرح علی بابا چالیس چور کی کہانی بھی ”یو ٹیوب“ پر موجود ہے۔ اس کے علاوہ بھی ہمارے نئے تخلیقی اذہان نئے کردار تخلیق کر سکتے ہیں جو اکثر مطبوعہ ادب میں آپ کو مل ہی جاتے ہیں۔ نئی نسل کے لکھنے والوں سے ہمیں مایوس نہیں ہونا چاہیے۔

سراج عظیم: برصغیر ہند و پاک میں اردو میں بچوں کے ادب کی حالت؟

احمد حاطب: ہندوستان کا تمام ادب اطفال تو میری نظر سے نہیں گزرتا، تاہم ”بچپن“ پر بہت سی منفرد نظمیں اور کہانیاں نظر آپ جاتی ہیں۔ پاکستان میں مطبوعہ ہی نہیں سمعی اور بصری ادب بھی پیش قدمی کر رہا ہے۔ گو کہ سرکاری سر پرستی شاید آپ کے ہاں خاطر خواہ ہے نہ ہمارے ہاں۔ چند دیوانے ہیں جو ادب اطفال سے لو لگا ئیں۔مگر جیسا کہ میں نے عرض کیا مایوسی کی کوئی بات نہیں۔ رفتار سست ہے۔ مگر چل تو رہے ہیں۔

سراج عظیم: محترم والا اس بات کی وکالت تو ہم ایک عرصہ سے کر رہے ہیں کہ راؤلنگ نے اپنی ذہانت کا استعمال کرکے۔ ’ہیری پوٹر‘ کا کردار خلق کیا اور پرانی طلسماتی کہانیوں کو عصر حاضر کے مطابق کہانیوں میں جدت طرازی کرکے مقبول عام مصنفہ بن گئی ہمارے یہاں ایسا کیوں نہیں کیا ہمارا ادب اس قابل نہیں کہ اسے نیا جامہ پہنایا جاسکے۔

احمد حاطب: میں آپ سے متفق ہوں۔ ہمارا ادب تو ان سے کہیں زیادہ طلسماتی، حیرت انگیز اور ”ہوش رُبا“ ہے۔ پھر ہماری داستانوں میں بچوں کے لیے تعمیری اسباق بھی چھپے ہوئے ہیں۔ کاش کوئی ان داستانوں پر وقت اور سرمایہ صرف کرنے والا ہو۔
بچوں کی ذہانت کو مہمیز دینا قوموں کی تقی کے لیے بڑے بڑے کارخانے لگانے سے زیادہ ضروری ہے۔
ترقی۔

سراج عظیم: یہاں بھی ادب اطفال کے کچھ جنونی ہیں جو دن رات اپنا اوڑھنا بچھونا بچوں کا ادب بنائے ہوئے ہیں۔ ہمارا مقصد کم از کم ہندوستان میں بچوں کے ادب کی بازیافت ہے جو اسی کے بعد نامانوس تھا۔ مگر قاری ندارد اس کا مطلب؟

احمد حاطب: قاری بھی موجود ہیں۔ مگر ان میں مطالعے سے رغبت پیدا کرنے کے لیے اساتذہ اور بچوں کو خود توجہ کرنا ہوگا۔ جن گھروں میں والدین کو مطالعے کا ذوق ہوتا ہے ان گھروں میں دیکھا گیا ہے کہ بچوں کو بھی شوق ہو جاتا ہے۔

سراج عظیم: مسئلہ تو وہی ہے کہ اردو کے نام پر اور اپنی زبان کی بقا کے لئے کوئی سرمایہ لگانے کو تیار نہیں؟

احمد حاطب: اپنے اہلِ ثروت کے لیے ہم دعا ہی کر سکتے ہیں کہ اللہ ان کو عقلِ سلیم عطا فرمائے۔

سراج عظیم: بچوں کو کتابوں سے رغبت کیسے دلائی جائے؟ دوسری بات کیا اسکرین زدہ سوسائٹی میں یہ کامیاب ہوسکے گا؟

احمد حاطب: بچوں کو رغبت دلانے کے لیے بڑوں کو بھی رغبت سے مطالعہ کتب کرنا ہوگا۔
اسکرین پر بھی وہ ادب پیش کیا جا سکتا ہے جو کتابوں میں بند ہے۔
مطالعے کی رغبت پیدا کرنے کے لیے ہم نے یہاں اسلام آباد میں ایک تجربہ کیا جو کامیاب رہا۔
اسکولوں کے طلبہ و طالبات کو مولانا سید سلیمان ندوی کی کتاب ”رحمتِ عالم“ مطالعے کے لیے دی گئی۔ دس دن کے بعد ان تمام طلبہ و طالبات کو ایک کتب خانے میں جمع کیا گیا۔ ان کو ایک سوال نامہ دیا گیا اور کہا گیا کہ ان سوالات کے جوابات کتاب میں سے دیکھ کر لکھئے اور کتاب کے صفحہ نمبر کا حوالہ بھی دیجیے۔ حیرت انگیز طور پر کئی بچوں نے سو فیصد جوابات درست دیے۔ انھیں انعامات دیے گئے۔ یہ سلسلہ ”مقابلہ کتاب خوانی“ کا یہ سلسلہ وبائی دور میں رک گیا۔ مگر یہ طریقہ خاصا نتیجہ خیز رہا۔

سراج عظیم: ہمارے یہاں حالانکہ ایک سروے کے مطابق 37/ فی صد ادب پڑھا جاتا ہے پاکستان میں اردو زبان بولی لکھی پڑھی جاتی ہے اس کے بعد قاری 25/ فی صد…… وجہ؟

احمد حاطب: آبادی کا بھی فرق ہے۔ دوسری وجہ نظام تعلیم ہے۔
ہم یہاں ذریعہ تعلیم کے طور پر انگریزی کی جگہ اردو نافذ کرنے کے لیے کوشش کر رہے ہیں۔ کیوں کہ تمام تعلیمی ادارے انگلش میڈیم ہوجانے کی وجہ سے بچے اردو کی علمی اور ادبی کتب سے کٹ کر رہ گئے ہیں۔ ایک نسل جوان ہو کر ادھیڑ عمر ہوگئی ہے۔ اس وجہ سے مطالعہ کتب میں کمی آئی ہے۔

سراج عظیم: اس طرح کے کام ہمارے یہاں بھی ہورہے ہیں۔ بڑے پیمانے پر مہاراشٹر میں اس طرح کے تحریکاتی پروگرام ہوتے ہیں کیوں کہ وہاں نسل کی تہذیبی آبیاری اور اپنی زبان کی بقا اور تشخص کو قائم رکھنے کے لئے۔ اس کے بعد بھی زیادہ تر بچوں کا رجحان اپنے ادب کی طرف نہیں۔؟ اس کی وجوہات اجمالی طور پر کیا ہوسکتے ہیں؟
سراج عظیم: یہ سوال اردو میں بچوں کے ادب کی عالمی طور پر اہمیت کے تحت کیا گیا ہے۔؟

احمد حاطب: ا جمالی طور پر تو مجھے دونوں ممالک میں یہی وجہ نظر آتی ہے کہ بچے جن کو بھی اپنے لیے مثالیہ (Ideal) بناتے ہیں ان کی تقلید کرتے ہیں۔ چوں کہ عمومی طور پر ہمارے ہاں علم و ادب سے توجہ ہٹ کر دیگر سمتوں میں چلی گئی ہے تو بچے بھی بڑوں کی تقلید ہی کر رہے ہیں۔
احمد حاطب: بیرونی ممالک میں جن والدین نے اپنی زبان سے اپنا ناتا برقرار رکھا ہے وہ اردو کتب یہاں سے لے جاتے ہیں۔

سراج عظیم: محترم آپ بچپن سے جڑے ہوئے ہیں۔ ہم اپنی بھر سی کوشش کررہے ہیں ہمارے لئے کوئی مشورہ؟

احمد حاطب: ایسے ماہر تخلیق کاروں کا ایک مشاورتی حلقہ بنا لیجیے جو قدیم ادب کو جدید شکل میں ڈھال لیں اور جدید تقاضوں کے مطابق عالمی معیار کا ادبِ اطفال تخلیق کر سکتے ہوں۔ جب آپ کے پاس ”تیار مال“ ہوگا تو شاید کوئی سرمایہ لگانے پر بھی آمادہ ہوجائے۔ ”بچپن“ میں نہایت ذہین اور طباع تخلیق کار موجود ہیں۔وہ دنیا کے کسی بھی بڑے تخلیق کار کا مقابلہ کر سکتے ہیں۔ انھیں اپنے آپ کو کمتر نہیں سمجھنا چاہیے۔

سراج عظیم: عجیب المیہ ہے وہی حضرات جو یہاں اپنی تہذیب اپنی ثقافت اور زبان کو اپنے ملک میں ترجیح نہیں دیتے وہاں اچانک اس کی ضرورت عود کر آتی ہے اس کے پیچھے کیا عوامل ہوسکتے ہیں۔ کیا آپ ہماری بات سے متفق ہیں؟

احمد حاطب: جی ہاں سو فیصد متفق ہوں۔
بات یہ ہے کہ جب وہاں بچے اپنی تہذیب ترک کرتے ہوئے نظر آتے ہیں تب انھیں اپنی زبان کی قدر بھی محسوس ہوتی ہے اور اپنی تہذیب کی بھی۔

سراج عظیم: اس پوری گفتگو کا ما حاصل یہ نکلا کہ معصوم قاری قصور وار نہیں،والدین یا سماج اور کچھ حد تک تخلیق کار بھی۔ آپ کیا مشورہ دینا چاہتے ہیں؟

احمد حاطب: جیسا کہ پہلے عرض کر چکا ہوں۔ بچے وہی رویہ اور عادات اختیار کرتے ہیں جو دیکھتے ہیں۔ لہٰذا والدین، اساتذہ اور سماج سب ذمے دار ہیں۔ صرف تخلیق کار ہی تو ہے جو کسی قدر دکھ محسوس کر رہا ہے۔
احمد حاطب: برادر سراج عظیم میں آپ کا بے حد احسان مند ہوں کہ آپ نے اس وقیع محفل میں مجھ نا چیز کو اظہار خیال کا موقع عنایت فرمایا۔ میں ”اپنے بچپن کے ساتھیوں“ کا بھی شکر گزار ہوں۔
بعض نا گزیر اسباب سے آپ سے رخصت کا طالب ہوں۔ جزاک اللہ ُ خیراً کثیرا۔

سراج عظیم: ہمیں پہلے یہ سوال کرنا چاہئے تھا۔ آپ کی کتنی کتابیں اب تک آچکی ہیں۔ آگے کون سی آنے والی ہیں۔ دوسرے ’بچپن گروپ‘ کے بارے میں آپ کے تاثرات؟
سراج عظیم: حاطب صاحب! ہم آپ کے بہت شکریہ گذار ہیں کہ آپ نے بچپن کو اپنا قیمتی وقت دیا۔

احمد حاطب: اب تک بچوں کے لیے دس کتب شائع ہو چکی ہیں۔ دو زیر تکمیل ہیں۔ بڑوں کے لیے چار کتب شائع ہو چکی ہیں۔ ایک زیر تکمیل ہے۔”بچپن“ نہایت مفید گروپ ہے اور اس میں گاہے بگاہے بہت اعلیٰ درجے کا معیاری ادب اطفال نظر سے گزرتا ہے۔ نو آموز تخلیق کاروں کے لیے یہ گروپ ایک تربیت گاہ بھی ہے۔ ادب اطفال کا سفر ان شاء اللہ جاری رہے گا اور اس میں قوت بھی پیدا ہوگی۔ ان شاء اللہ۔ اللہ حافظ۔

بچپن، نہایت مفید گروپ ہے اور اس میں گاہے بگاہے بہت اعلیٰ درجے کا معیاری ادب اطفال نظر سے گزرتا ہے۔ نو آموز تخلیق کاروں کے لیے یہ گروپ ایک تربیت گاہ بھی ہے۔ ادب اطفال کا سفر ان شاء اللہ جاری رہے گا اور اس میں قوت بھی پیدا ہوگی۔ ان شاء اللہ۔ اللہ حافظ۔

مصنف کے بارے میں

کوثر حیات

ایک تبصرہ چھ