افسانہ افسانوی نثر

خوابوں سے پرے (تحریر) از شفا چودھری، افسانہ ایونٹ 2022، زیر اہتمام ولر اردو ادبی فورم کشمیر37

پیش کش : جی این کے اردو

ولر اردو ادبی فورم کشمیر
افسانہ ایونٹ 2022
افسانہ نمبر _37
بینر :- عمران یوسف
افسانہ:-“خوابوں سے پرے”
افسانہ نگار:- شفا چودھری
وہاڑی پنجاب پاکستان

دور افق پار سے جھانکتی دو آنکھیں مجھے اندر تک جلا رہی تھیں۔ سورج کی تمازت سے اتنا بدن نہیں جل رہا تھا، جتنا ان نگاہوں کی ٹھنڈک میری روح کو جھلسا رہی تھی۔


وقت کے پنچھی نے اڑان بھری اور مجھے ساحل پر لا پٹخا۔ میں نے اپنی چٹختی ہوئی ہڈیوں کو سہلایا اور با مشکل اٹھ کر بیٹھ گیا۔ درد کے نشتر میرے بدن میں چبھ رہے تھے۔ میں نے بہت کوشش کی کہ اپنے قدموں پر کھڑا ہو جاؤں لیکن کوشش کے باوجود میں ایسا کرنے میں ناکام رہا۔ تھک کر میں نے یہ کوشش چھوڑ دی اور تا حدِ نگاہ تک پھیلے ساحل کو تکنے لگا۔
“ابھی ایک منہ زور لہر آئے گی اور مجھے اپنے سنگ بہا لے جائے گی۔ شاید یہی میرا نصیب ہے۔” میں نے سوچا اور تصور میں بڑے بڑے مگرمچھوں کو اپنی جانب بڑھتے دیکھنے لگا۔ میں نے رینگ کر ساحل سے دور ہونا چاہا تو میرے بازوؤں نے میرا بوجھ اٹھانے سے انکار کر دیا۔
“کیا میرا جسم مفلوج ہو چکا ہے؟” سوچ کی لہر میرے دماغ کے پردوں سے ٹکرائی تو میں نے اپنے ہاتھوں سے اپنے جسم کو چھوا اور بازو پر چٹکی بھری۔
“اف!” میرے منہ سے سسکاری نکلی اور میں وہیں ڈھیر ہو گیا۔


یہ نوے کی دہائی کا اوائل تھا، بحیثیت سائنس ٹیچر میری تعیناتی سرکاری اسکول میں ہوئی تھی۔ پہلی بار اس سے میرا سامنا ٹیچرز ٹریننگ ورکشاپ پر ہوا تھا۔ یہ ورکشاپ لڑکیوں کے اسکول میں ارینج کی گئی تھی۔
اس دن ورکشاپ ختم ہونے کے بعد میں کمرے سے باہر نکلا تو راہداری میں چلتے ہوئے مجھے صنف نازک کے سسکنے کی آواز آئی۔ میرے بڑھتے قدم ایک دم رک گئے۔ میں نے پلٹ کر دیکھا تو سیاہ چادر میں لپٹا وجود گھٹنوں میں چہرہ چھپائے ہولے ہولے لرز رہا تھا۔ میں نے چاروں جانب نگاہ دوڑائی، سارا اسکول خالی ہو چکا تھا اور ایسے میں ایک لڑکی کا وہاں تنہا ہونا اس کے لیے خطرناک بھی ہو سکتا تھا۔
“محترمہ! سنیے۔” میرے مخاطب کرنے پر اس نے اپنا چہرہ اوپر اٹھایا۔ میں اسے دیکھ کر دم بخود رہ گیا۔ ایسا بے داغ حسن میں نے زندگی میں کبھی نہیں دیکھا تھا۔ نین کٹوروں سے بہتے آنسو گالوں سے لڑھک کر اس کی چادر میں گم ہو رہے تھے۔ مجھے اپنی طرف محویت سے تکتا دیکھ کر وہ اپنی چادر درست کرتی ہوئی اٹھ کر کھڑی ہو گئی۔
“آپ کو کوئی مسئلہ ہے تو مجھے بتائیے، ہو سکتا ہے کہ میں آپ کی کچھ مدد کر سکوں۔” میں نے ازلی ہمدردی کے تحت اپنی خدمات پیش کیں۔
“میں یہاں داخلے کے لیے آئی تھی۔” وہ رک رک کر بولی۔
“آپ؟” مجھے حیرت ہوئی کیوں کہ اس کی چودہ پندرہ سال تو ہرگز نہیں تھی۔
“آپ بھی ہنس لیجیے۔ اس نے منہ بسورا” مجھے اس کے اس انداز پر واقعی ہنسی آ گئی تھی۔ اس کی عمر جو بھی تھی لیکن مجھے اس وقت وہ ایک ننھی سی گڑیا لگی جو اپنے کھلونے کھو جانے پر افسردہ تھی۔
“نہیں! میں اس بات پر نہیں ہنسا!” میرے چہرے پہ اب بھی مسکراہٹ تھی۔ اس نے کچھ کہے بغیر سیڑھیوں پر پڑا بیگ اٹھایا اور آگے قدم بڑھا دیے۔
“ارے رکیے!” میں اس کے پیچھے لپکا۔ لیکن وہ تیز قدم اٹھاتی ہوئی گیٹ سے باہر نکل گئی۔ میں بھی باہر نکل آیا۔ ادھر ادھر نگاہ دوڑانے پر وہ مجھے رکشے کے انتظار میں درخت کے نیچے کھڑی نظر آ گئی۔
“سنیے.” میرے پکارنے پر وہ پلٹی۔
“جی! کہیے۔” اس نے بھرپور اعتماد سے جواب دیا۔
“کیا میں آپ کی کچھ مدد کر سکتا ہوں؟” مجھے شاید اپنے پیشے کے فرائض یاد آ رہے تھے۔
“کیا کریں گے آپ؟” اس نے براہِ راست میری آنکھوں میں جھانکا جیسے کہہ رہی ہو، آپ مجھے گھورنے کے سوا کیا کر سکتے ہیں.
“دیکھیے! محترمہ میرا اس بات سے کوئی مفاد وابستہ نہیں ہے۔ اصل میں، میں ایک استاد ہوں اور بحیثیت استاد میں صحیح معنوں میں آپ کی مدد کرنے کے متعلق سوچ رہا ہوں ۔” میں نے اس کی آنکھوں میں چھپے طنز کی توجیہہ پیش کی۔
“اوہ اچھا! بہت معذرت۔” اس کے چہرے پر شرمندگی کے آثار نمودار ہوئے۔
“ہم کہیں بیٹھ کر بات کر سکیں اگر؟” میں نے ہچکچاتے ہوئے کہا۔
“جی ضرور!” وہ میرے خیال کے برعکس فوراً مان گئی۔ مجھے اس کے اعتماد پر حیرت کے ساتھ خوشی بھی ہوئی کہ شاید میری شخصیت میں ایسا کچھ ہے، جو اجنبیوں کے لیے بھی مجھے قابل اعتبار بناتا ہے۔
تھوڑی دیر بعد ہم قریبی کیفے میں بیٹھے ہوئے تھے۔
“آپ کیا لینا پسند کریں گی؟’ میں نے مینیو بک اس کے سامنے رکھی۔
“کچھ بھی نہیں مجھے بھوک نہیں ہے۔” اس نے سہولت سے منع کر دیا۔
“چلیں چائے کا ایک کپ ہی سہی۔” میں نے بیرے کو اشارے سے بلایا اس بار اس نے مجھے منع نہیں کیا۔

“میرا نام اجالا ہے۔” اس نے میری طرف دیکھا۔
“بہت خوب صورت ہے۔” میں نے کہنا چاہا آپ کا یہی نام ہونا چاہیے لیکن میں میں چپ رہا۔ میں اس اعتماد کو کھونا نہیں چاہتا تھا جو اس نے مجھ پر کیا تھا۔
“ہاں نام ہی خوبصورت ہے لیکن۔۔” بیرا چائے رکھنے آیا تو وہ خاموش ہو گئی۔ چائے کا کپ اپنے آگے کھسکاتے ہوئے اس نے چھوٹی سی چسکی بھری۔ وہ بھی شاید میری طرح چائے کی شیدائی تھی۔
“کچھ کہہ رہی تھیں آپ!” میں نے گرم گرم چائے اپنے اندر انڈیلتے ہوئے اس کو متوجہ کیا، جو شیشے سے باہر آتی جاتی گاڑیوں پر نظریں جمائے ،چائے کے گھونٹ بھر رہی تھی۔
“کچھ نہیں۔” اس نے چائے کا خالی کپ میز پر رکھا۔
“آپ بتائیے میں کیا مدد کر سکتا ہوں آپ کی۔” میں نے دانستہ بات کا رخ بدلا۔ میں کتاب کے ہر لفظ کو اچھی طرح سمجھ کر پڑھنے والا اس صفحے کو پڑھے بغیر صفحہ پلٹ گیا۔ کچھ باب قبل از وقت نہیں پڑھنے چاہیں۔ یہ میرا نظریہ تھا۔
“میں پڑھنا چاہتی ہوں۔” اس کی آنکھوں سے پھوٹتی روشنی سے میرا وجود نور میں نہا گیا۔ تم واقعی ہی اجالا ہو میں نے دل میں اقرار کیا۔
“مجھے آپ کے گفتگو کے انداز اور حلیے سے قطعاً نہیں لگا کہ آپ تعلیم یافتہ نہیں ہیں۔” میں حیرت زدہ تھا۔
“اسناد کے بغیر کوئی بھی آپ کی تعلیمی حیثیت کو تسلیم نہیں کرتا۔ میں بہت کچھ پڑھ چکی ہوں لیکن مجھے کالج میں ایڈمیشن کے لیے میٹرک کی سند چاہیے، جو کہ میرے پاس نہیں ہے۔ میں پرائیویٹ امتحان نہیں دے سکتی کیونکہ میں میٹرک سائنس کے ساتھ کرنا چاہتی ہوں ۔اسی سلسلہ میں، میں آج اس اسکول میں آئی تھی۔ میرا برتھ سرٹیفکیٹ دیکھ کر مجھے یہاں داخلے کی اجازت نہیں ملی۔” میرے ذہن میں کئی سوالات نے سر اٹھایا لیکن میں ابھی کوئی باب قبل از وقت پڑھنے کا قائل نہیں۔
“ایک پرائیویٹ اسکول کے اونر میرے دوست ہیں۔ اگر آپ چاہیں تو میں آپ کا وہاں ایڈمیشن کروا سکتا ہوں۔”
“کیا سچ؟” وہ بچوں کی طرح خوش ہو گئی۔
“ہاں بالکل!” مجھے اس کے چہرے پر پھیلتے خوشی کے رنگ بہت بھلے لگے۔

میں نے اس کا داخلہ اسکول میں کروا دیا۔ چھ ماہ کا عرصہ پلک جھپکنے میں گزر گیا۔ ایک دو بار میں اسکول گیا تو میرا سامنا اس سے ہوا۔ وہ بہت خوش تھی اور میری ممنون بھی۔ اس نے نویں کا نصاب چھ ماہ میں مکمل کر لیا تھا۔ مجھے امید تھی کہ وہ اسی سال میٹرک کا امتحان دے کر اعلی نمبروں سے کامیابی حاصل کرے گی۔ امتحانات سے قبل میرا تبادلہ دوسرے شہر میں ہو گیا۔ میں اپنی عمر کی تیس بہاریں دیکھ چکا تھا اور امی کا شادی کا مطالبہ دن بدن زور پکڑتا جا رہا تھا لیکن میں فی الحال اس جھنجھٹ میں نہیں پڑنا چاہتا تھا۔ زندگی اپنی ڈگر پر رواں رہی۔
پانچ سال بعد میری ترقی ہوئی اور میں سرکاری اسکول کا پرنسپل بن کر اپنے شہر لوٹ آیا۔
شہر میں داخل ہوتے ہی میرے دل کو جیسے قرار آ گیا۔ ایسے ہی جیسے ننھے بچے کو کتنی دیر کے بعد ماں کی آغوش میسر آئے تو وہ خوشی سے ہمکنے لگے۔ اس وقت میرے دل کا حال بھی اس ننھے بچے کی طرح تھا۔ گاڑی گھر کی طرف رواں دواں تھی۔ راستے میں مجھے گرلز اسکول نظر آیا جہاں وہ مجھے پہلی بار ملی تھی۔ میری نگاہوں نے وہ شجر دیکھا جہاں ہم کھڑے تھے۔ وہ کیفے گزرا سب جوں کا توں تھا لیکن وہ کہیں نہیں تھی۔ میں نے اپنے دل کو ٹٹولا شاید وہاں کچھ تھا لیکن کیا؟ یہ میں سمجھ نہیں پایا۔
اگلے دن چھٹی تھی میں اپنے دوست سے ملنے اس کے گھر چلا گیا۔ باتوں باتوں میں، میں نے اس کا ذکر چھیڑا تو اس کی زبانی مجھے معلوم ہوا کہ اجالا نے ٹاپ کیا تھا اور اسے وظیفہ بھی ملا تھا۔ اس کا ایڈمیشن شہر کے اچھے کالج میں ہو گیا تھا۔ میں نے اس سے کالج کا نام پوچھا اور گھر چلا آیا۔
اگلے دن میں نے کالج سے چند معلومات حاصل کیں۔ اس وقت میں میڈیکل کالج کے سامنے کھڑا ہوا تھا۔

“سر آپ!” اس کے لہجے میں وہی کھنک تھی۔ وہ چھبیسویں سال میں لگ چکی تھی اور مزید حسین ہو گئی تھی۔ میں نے دل ہی دل میں اقرار کیا۔
“کیسی ہیں آپ؟” میں نے پتلون کی جیب میں دونوں ہاتھ اڑسے اس سے دو، تین فٹ کے فاصلے پر کھڑا تھا۔ اس کے لباس سے اٹھتی مہک مجھ پر سحر پھونک رہی تھی۔
“سر! آپ کہاں چلے گئے تھے ؟” اس کی آنکھوں میں مجھے نمی سی تیرتی محسوس ہوئی۔
کچھ دیر بعد ہم اسی کیفے ٹیریا میں بیٹھے تھے۔ وہ اپنی کامیابیوں کے قصے سناتی ، ننھی سی گڑیا لگ رہی تھی جس کے کھلونے اسے واپس مل چکے تھے۔ وہ دو گھنٹے کیسے گزرے مجھے کچھ پتا نہ چلا۔ واپسی پر میری گاڑی میں جگجیت سنگھ کی غزل گونج رہی تھی۔

ہر ملاقات پہ محسوس یہی ہوتا ہے
مجھ سے کچھ تیری نظر پوچھ رہی ہو جیسے

میں اس دن اسی غزل کی دھن پر سیٹی بجاتا گھر میں داخل ہوا تو میرے لان کے گلابوں نے معنی خیز نظروں سے مجھے دیکھا۔ میں ایک بھرپور مسکراہٹ ان پر اچھال کر اندر آ گیا۔

ہم دوسری بار سمندر کے کنارے ملے تھے۔ شام کے عارضوں پر کھیلتی شفق نے اسے گلابی رنگ پہنا دیا تھا۔ ساحل سمندر پر پانی کا شور فضا میں ہلکی ہلکی موسیقی گھول کر دلکش تاثر پیدا کر رہا تھا۔ دور سے آتی سارنگی کی دھن پر محبت کا گیت مچلنے کو بے تاب ہو اٹھا۔
پھر ہم اکثر ملنے لگے۔ میں اس کی آنکھوں میں تکتے تکتے ساری عمر گزار دینا چاہتا تھا۔
“حسن!” اس نے پہلی بار میرا نام لیا تو میرا رواں رواں سماعت بن گیا۔ اس کے لبوں سے اپنے نام کی تکرار سننے کے لیے میں دانستہ اس کی بات ان سنی کر دیتا۔ جب وہ میرا نام زور زور سے پکارتی تو میرے اندر تک طمانیت کا احساس سرایت کر جاتا۔ میں اکثر ایسا جان بوجھ کر کرتا تھا۔ وہ میری شرارت کو سمجھ کر مسکرا دیتی اور ہولے ہولے میرا نام لیے جاتی۔
باب محبت کا آغاز ہو چکا تھا۔ لیکن میں اب بھی اس کی زندگی کے ان دیکھے صفحات کو پڑھنے کی تمنا دل میں دبائے بیٹھا تھا۔
اس دن ساحل پر اس کے سنگ چلتے ہوئے میں رک گیا۔ وہ باتیں کرتے ہوئے آگے نکل گئی۔
“رک کیوں گئے؟” اس نے گردن موڑ کر میری جانب دیکھا۔
میں آہستہ آہستہ قدم اٹھاتا اس کے قریب جا کر کھڑا ہو گیا۔
“ایسے کیا دیکھ رہے ہیں۔” اس کے شہابی رخسار دہک اٹھے.
اس کے شانوں پہ بکھری زلفوں کی مسحور کن مہک نے مجھے بے خود کر دیا تھا۔ میں نے نگاہوں کا رخ موڑا اور دور سے آتی لہروں کی طرف دیکھنے لگا۔
“مجھ سے شادی کرو گی؟” میں نے اپنے اندر اٹھتے طوفان کو دبایا۔
ہنستے ہنستے اس کے چہرے کا رنگ متغیر ہو گیا۔۔
“آپ مجھ سے شادی کریں گے؟” اس کا لہجہ یاسیت بھرا تھا۔
“کیوں؟ کیوں نہیں کر سکتا میں تم سے شادی؟” میں نے اس کے شانوں پہ ہاتھ رکھا۔
اس کی آنکھوں میں تیرتی خوشی ایک دم معدوم ہوئی تھی۔
“کیوں کہ میں۔۔۔” وہ ان دیکھے باب کے صفحات پلٹ رہی تھی اور میں خواہش کر رہا تھا کاش یہ صفحات بنا پڑھے ہی رہتے۔
اس کے لبوں سے آزاد ہوتے الفاظ میرے دل کو مٹھی میں جکڑ رہے تھے۔ میں خود پر ضبط کیے با مشکل تمام اس کی داستان سن رہا تھا۔ آگہی عذاب ہے، مجھے صحیح معنوں میں اسی روز ادراک ہوا تھا۔
“آپ مجھ سے شادی کا کہہ رہے تھے.” اس نے میری آنکھوں میں جھانکا۔
“ہاں! وہ میں بتاتا ہوں۔” میں گڑبڑا گیا۔ اس کے ہونٹوں پر عجیب سی مسکان ابھری جو مجھے اندر تک گھائل کر گئی۔
اس دن پہلی بار میں نے خود کو مضمحل سا محسوس کیا۔ شاید یہ اندر کی تھکن تھی۔
“محبت کرنے والوں کے دل سمندر کی طرح وسیع ہوتے ہیں۔”مجھے اپنی کہی گئی بات یاد آئی، جو ایک دن میں نے سمندر کی جانب دیکھتے ہوئے کہی تھی۔
“آپ کا دل بھی اتنا ہی وسیع ہے؟” مجھ اس کی نگاہوں سے لپٹے خوف کی سمجھ اب آئی تھی۔
“ہاں بہت۔” میرے یہ کہنے پر وہ کھلکھلا کر ہنس دی تھی۔
اس کی ہنسی میں سانس لیتی بے بسی مجھے آج محسوس ہو رہی تھی۔
میں بہت دیر بے وجہ سڑک پر گاڑی دوڑاتا رہا۔ رات گئے واپس لوٹا تو لان تاریکی میں ڈوبا ہوا تھا۔ گلاب بھی شاید کسی کونے میں دبکے ہوئے تھے ورنہ میں ان کا سامنا کیسے کرتا۔
میرا دل ساری رات مجھے مناتا رہا۔ پچھلے پہر وہ تھک کر خاموش ہو گیا۔ میں نے زندگی بھر دل کی نہیں چلنے دی تھی تو اب وہ کیوں بازی لے جاتا دماغ ایک طرف کھڑا مسکرا رہا تھا۔
آج شام مجھے اس سے آخری بار ملنے جانا تھا۔ میں تیار ہو کر باہر نکلا اور پھولوں سے نگاہیں چراتا ہوا گاڑی میں بیٹھ گیا۔

“آپ کی آنکھوں میں جگمگاتے جگنو مجھے دور کہیں بیابان میں بھی بھٹکنے نہیں دیتے۔ میں جب جب آپ کا تصور کرتی ہوں ، امید بھری دو نگاہیں مجھے اپنی طرف بلاتی ہیں۔ آپ کو پتا ہے کہ میری ذات کی تاریکیوں میں جل اٹھنے والا آپ وہ روشن دیا ہیں جو میرے وجود سے ہر اندھیرا کھینچ کر اسے روشنی بخشتا ہے۔ میں آپ کی روشنی کے حصار میں ہوں اور یہ احساس اتنا خوش کن ہے جو مجھے پہروں شاد رکھتا ہے۔” وہ بولتے بولتے خاموش ہو کر آسمان کو گھورنے لگی۔
“میں اڑنا چاہتی ہوں۔ ان پرندوں کی طرح!” اس نے دور اڑتے پنچھیوں کی طرف انگلی سے اشارہ کیا۔
“کس نے روکا ہے تمہیں؟” میں نے اس کو نگاہوں کی گرفت میں لے کر پوچھا۔
“میں خوف زدہ ہوں۔”
“خوف زدہ لیکن کیوں؟”
” میری روشنی آپ ہیں مجھے ڈر ہے کہ میں کہیں کسی چٹان سے نہ ٹکرا کر زخمی ہو کر نہ گر پڑوں، کہیں میرے پر نہ نوچ لیے جائیں۔” اس کی آنکھوں میں آنسو تیرنے لگے۔ میں اس کی آنکھوں میں تیرتے موتی گرنے سے پہلے اپنی ہتھیلیوں میں سمیٹ لینا چاہتا تھا لیکن میں ایسا نہ کر پایا۔ وہ روتی رہی، اس کا دامن آنسوؤں سے بھیگتا رہا۔ شام کی سرخی دھیرے دھیرے سیاہ چادر کو اوڑھ رہی تھی۔ میں نے دور اڑتے جگنوؤں کے قافلے کو دیکھا۔ میں چاہتا تو امید کا ایک جگنو اس کے ہاتھ میں تھما سکتا تھا۔
“چلو آؤ! تمہیں چھوڑ دوں۔”میں نے چابی اٹھائی اور کھڑا ہو گیا۔
میں چلی جاؤں گی۔ اس نے پرس اٹھایا اور میری طرف دیکھے بنا آگے بڑھ گئی۔ میں چاہتے ہوئے بھی اسے صدا نہیں دے سکا۔

میں نے امی کے مطالبے کے سامنے ہتھیار ڈال دیے تھے۔ آج مہمانوں نے آنا تھا سو میں گھر پر ہی تھا۔
“صاحب! یہ ڈاک ہے۔” میرے ملازم نے چند خطوط لا کر مجھے تھمائے۔ اتنے میں امی کی آواز آئی اور میں ڈاک میز پر رکھ کر باہر نکل گیا۔
دونوں اطراف سے رضا مندی ظاہر کر دی گئی اور میری شادی کی تیاریاں شروع ہو گئیں۔
آج مہندی کا فنکشن تھا۔ ہلے گلے کے بعد میں بہت تھک گیا تھا اسی لیے کپڑے تبدیل کر کے بیڈ پر دراز ہو گیا۔ کچھ یادوں نے میرے اردگرد رقص کیا اور میرا ہاتھ تھام کر مجھے ساحل کنارے لے گئیں۔
“تم پر کاسنی رنگ بہت جچتا ہے ” میں نے اس کے بالوں کی لٹ کو چھوا۔
“میں اب سارے کپڑے اسی رنگ کے بنا لوں گی ۔” اس کے عارضوں پر ان گنت رنگ کھل اٹھے۔ میں نے انگلی کی پوروں سے اس کے گال چھو لیے۔
“اف! تم آج پھر آ گئیں۔ مطلب آج نیند نہیں آئے گی۔” میں اٹھ کر میز تک آیا اور خود کو کرسی پر گرا لیا۔ سگریٹ سلگا کر میں نے لبوں سے لگایا اور خود کو پر سکون کرنے کی سعی کرنے لگا۔
میری نظر اخبارات کے پلندے کے نیچے دبے نیلے لفافوں پر پڑی تو مجھے کچھ یاد آ گیا۔ میں نے باری باری لفافوں کو الٹ پلٹ کر دیکھتا ، انہیں ایک طرف رکھتا جا رہا تھا کہ مجھے وہ خط نظر آیا جس میں میری موت کا مژدہ تھا۔ خط کی عبارت پڑھتے ہوئے میں واقعی مر رہا تھا۔ میرے جسم سے ہولے ہولے جان نکلتی جا رہی تھی۔ الفاظ تھے کہ تازیانے جو میری روح پر برس رہے تھے۔
“السلام علیکم سر! آپ کی تا عمر شکر گزار رہوں گی، جنہوں نے مجھے یہ سمجھنے میں مدد دی کہ یہ معاشرہ مجھے کبھی قبول نہیں کرے گا۔ آپ کی اجالا اندھیروں میں لوٹ رہی ہے۔”
الفاظ کی اوٹ سے جھانکتی دو سرد نگاہیں، میرے وجود کو بے جان کر کے ساحل پر پٹخ گئیں۔

مصنف کے بارے میں

GNK Urdu

ایک تبصرہ چھ